تحریر زکیر احمد بھٹی
انسان جب سے پیدا ہوا ہے ہمیشہ سے بس ایک ہی خواہش رہی ہے کہ اس جہاں میں سب کچھ ہمارے پاس ہو دنیا میں سب سے زیادہ امیر ہم ہی ہوں دنیا کی ہر چیز ہمارے پاس ہو ہم جو چاہیے اپنی زندگی میں خرید سکیں جس طرف بھی ہماری نظر جائے سب سے زیادہ خوشیاں ہمیں ہی ملے مگر افسوس ہے کہ انسان اپنی سوچوں سے باہر نکل کر کبھی نہیں سوچتا اور نہ ہی یہ دیکھنا گوارا کرتا ہے کہ ہمارے آس پاس کیا ہو رہا ہے لوگ کیسے زندگی گزارنے پر مجبور ہے کس طرح لوگوں کی زندگی گزر رہی ہے آج انسان زندگی کے اس موڑ پر پہنچ گیا ہے اسے دنیا تو بہت دور اپنے گھر کے آس پاس رہنے والوں کی بھی خبر نہیں ہے کہ کون کون اور کیسے کیسے لوگ ہمارے آس پاس رہتے ہے ان گھروں میں لوگوں کی زندگی کیسے گزر رہی ہے مجھے ایک بات ہمیشہ یاد رہتی ہے اور وہ وقت میں جب بھی یاد کرتا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو بھر جاتے ہے گرمی کا موسم تھا اور میں کسی کام سے کہیں جا رہا تھا گرمی اس قدر تھی کہ برداشت سے باہر تھی روڈ خالی تھی بہت کم لوگ تهے جو آتے جاتے دیکهائی دے رہے تهے تو میری نظر ایک چھوٹی سی معصوم سی بچی پر پڑی جو روڑ کے ساتھ چل رہی تھی جب میری نظر اس پر پڑی تو میں نے دیکھا کہ اس کے پیروں میں جوتے بھی نہیں تھے اور اس کے کپڑے بھی بہت پرانے تھے جیسے کئے دن سے کیا کئی ماہ سے نہ کپڑے دھوئیں ہوں اس کے معصوم سے چہرے پر غریبی کے آثار صاف دیکهائی دے رہے تھے میں نے اپنی گاڑی کو روڈ کے ایک طرف روک لیا اور گاڑی سے باہر نکل کر اس بچی کی طرف چلتے ہوئے اس کے پاس جا پہنچا اور اس سے کچھ بات کرنا چاہی مگر وہ روڈ کے دوسری جانب چلی گئی مجھے یہ سب بہت عجیب سا لگا میں سوچنے لگا کہ یہ کیا ہے میں تو اس بچی سے بات کرنا چاہتا ہوں اس کی مدد کرنا چاہتا ہوں مگر وہ روڈ کے دوسری طرف چلی گئی میں نے اس آواز دی تو اس نے بس میری طرف ایک نظر دیکھا اور چلتی ہوئی کچھ ساپر کو اکٹھا کرتی ہوئی اپنے چھوٹے سے ہاتھوں میں پکڑی ایک بوری میں ڈالنا شروع کر دیا جب زمین پر پڑے کچھ ساپر اکهٹے کرکے بوری میں ڈال لیا تو واپس میری طرف آئی اور میرے نزدیک آ کر روک گئی میں اس کی طرف مسلسل دیکھ رہا تھا جب میں نے اس بات کی تو وہ بچاری معصوم سی بچی کچھ نہ بولی تو میں نے اس سے اس کے حالات کے بارے بات کی تو اس بچی کا جواب سن کر میرا دل کر رہا تھا کہ میں اپنی گاڑی کو آگ لگا دوں اور اتنی اونچی اونچی آواز میں چلانا شروع کر دوں کہ میری آواز حکومت تک پہنچ جائے بچی اپنی توتلی سی زبان میں بول رہی تھی جب بچی نے کہا کہ انکل میرے ابو اس دنیا میں نہیں ہے میری امی بہت بیمار ہے اور ایک چھوٹا سا بھائی ہے جب اسے بھوک لگتی ہے تو وہ بہت روتا ہے ہمارے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہوتا تو میں روڈ سے سارا دن یہ پرانے ساپر اکهٹے کرکے ایک انکل کے پاس لے جاتی ہوں وہ مجھے تھوڑے سے پیسے دے دیتا ہے تو میں بھائی کے لئے اور امی کے لئے روٹی لے کر گھر چلی جاتی ہوں تو بھائی روٹی کها کر چپ ہو جاتا ہے جب میں نے اس بچی سے اس کے پیروں میں جوتوں کے بارے پوچھا تو اس نے کہا انکل میری امی کہتی ہے کہ جب میں ٹھیک ہو جاوں گی تو اپنی پری کو نئے جوتے لے کردوں گی ابھی ایسے ہی گزرا کر لے میری بچی.. اس کے جواب نے میرے دل کو ہلا کر رکھ دیا بچی کو جب میں نے کہا کہ میرے ساتھ میری گاڑی میں چل میں تجھے نئے جوتے بھی لے کر دیتا ہوں اور آپ کی امی کی دوائی بھی لے کر دیتا ہوں مگر اس بچی نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انکل میری امی نے منع کیا ہے کہ روڈ سے دوسری طرف نہیں جانا اور نہ ہی کسی کی گاڑی میں بیٹھنا ہے اور نہ ہی کسی کے گھر جانا ہے میں یہ بات سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اب میں کیا کروں میری دماغ میں بس یہی بات آئی کہ میں گاڑی کو یہاں ہی رہنے دوں اور اس بچی کے ساتھ اس کے گھر جاوں ایسا کرنے کے علاوہ میرے پاس کوئی حل بھی نہیں تھا گاڑی کو لاک کرنے کے بعد میں بچی کے ساتھ اس کے گھر چلا گیا تو اس بچی کی ماں سے ملا تو اس نے گھر کی کچھ صورتحال بتائی کہ میرے شوہر کے انتقال کے بعد خاندان نے ہم کو الگ کر دیا میرے پاس تعلیم نہیں جس کی وجہ سے میں کسی جگہ کام بھی نہیں کر سکتی اور بیماری کی وجہ سے کوئی گھر میں کام دیتا نہیں جس کی وجہ سے میری معصوم سی بچی دن بھر روڈ سے کچھ ساپر جمع کرکے فروخت کرکے کچھ پیسے گهر لے آتی ہے جس سے ہم لوگ اپنے پیٹ کی آگ کو بجھانے میں کامیاب ہو جاتے ہے ان کی باتوں سے میری آنکھیں مسلسل آنسوؤں سے بھر گئی اور جو بھی میرا سے ہوا وہ کرکے واپس اپنی راہ پر چلنے لگا یہ سب دیکھنے کے بعد میری ان امیروں سے درخواست ہے کہ ان سب کو چاہیے کہ ہم زیادہ نہیں تو کم از کم اپنے اردگرد کے لوگوں کا ہی خیال رکھے تاکہ ہمارے ملک سے غربت کا خاتمہ ہو سکے اللہ پاک نے اگر دیا ہے تو ہمیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ بھی کرنا چاہیے