تحریر۔۔۔امتیاز علی شاکر
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی، شام نئی
یقیناسال 2017ء میں بھی ماضی کی طرح کچھ نیانہیں ،نئے سال میں حصول رحمت و برکت کیلئے آغاز تحریر نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارک سے کرتاہوں ،حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے رویت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا میں پناہ مانگتا ہوں پانچ چیزوں سے کہ تم ان کو پاؤ۔جب کسی قوم میں فحاشی ( یعنی شراب نوشی بدکاری ناچ گانا وغیرہ)اعلانیہ ہوں گے تو وہ طاعون یعنی وباؤں اور ایسی بیماریوں میں مبتلا ہوگی جوان سے پہلے لوگوں میں کبھی نہ ہوئی تھیں۔جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی،ملاوٹ(یعنی تجارتی بدعنوانیاں ،چوربازاری وغیرہ)کرے گی توان میں قحط مصیبت اور ظلم ہوگا۔جوکوئی قوم ذکواۃنہیں دیتی تو اللہ تعالیٰ ان پر بارانِ رحمت روک دیتا ہے، جانور نہ ہوں تو کبھی ان پربارش نہ ہوتی۔جب کوئی قوم اللہ اور اس کے رسولؐ سے عہد شکنی کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ غیر قوم سے ان کے دشمن کو ان پرمسلط کردیتا ہے جوان کے مال (یعنی دولت ،تجارت اور زراعت وغیرہ )کوزبردستی چھین لیتے ہیں۔جب مسلمان حاکم اللہ کی کتاب(یعنی قرآن کریم)پر عمل نہیں کرتے اور جو اللہ نے نازل کیا ہے اس کواختیار نہیں کرتے(شریعت نافذ نہیں کرتے )تواللہ تعالیٰ ان میں لڑائی کرادیتا ہے (یہاں تک کہ خانہ جنگی ہوجائے)قارئین محترم غور کریں تو یہ تمام برائیاں آج ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور وہ تمام مشکلات بھی موجود ہیں جن کے بارے میں اللہ اور اُس کے رسول ؐنے پہلے ہی خبر دے دی ہے۔گزشتہ کئی سالوں کی طرح سال 2016ء بھی بیت چکا،نیال سال 2017ء شروع ہواچاہتاہے پر افسوس کہ ہمارے پاس کوئی نئی بات کرنے کی گنجائش نہ ہے،نئے سال میں بھی وہی پرانے دکھ ،پریشانیاں،ظلم وستم کی طویل داستانیں دامن میں سمیٹے تمام ترنیک خواہشات اور دعاؤں کے ساتھ ر اقم کی طرف سے پوری دنیا کے انسانوں خاص طور اہل پاکستان کو نیا سال مبارک ہو۔زندہ دل قومیں آنے والوں کو خوش دلی کے ساتھ خوش آمدید اورجانے والوں کورخصت کیاکرتیں ہیں ۔یہی سوچ کر کہ ابھی قوم کی ٹوٹی پھوٹی سانسیں چل رہی ہیں اُمیدقائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں،سال 2016ء کی آخری شام کی دہلیز پرکھڑے لاکھوں تکالیف سینے میں چھپائے،زخموں سے چورجسم و روح کے ساتھ آنکھوں میں سنہرے خواب سجائے سال2017ء کواس اُمیدکے ساتھ خوش آمدید کہتے ہیں کہ نیاسال خو شیوں کا پیغام لائیگااورچاروں طرف پھیلی بداعمالیاں،بے ایمانیاں،سودی نظام،کرپشن، وحشت ناک بدامنی،ناانصافی ،دہشتگردی،مہنگائی،بے روزگاری،بھوک ،ناپ تول میں کمی،ملاوٹ کارجحان اوردیگرمسائل کاخاتمہ آئندہ سال ممکن ہوگا۔راقم کے خیال نئے سال میں ہمیں اس بات پرغور کرناچاہئے کہ انسانی دنیا تیزی کے ساتھ تیسری جنگ عظیم کی طرف گامزن ہے،ہرطرف جنگی اتحاد قائم ہورہے ہیں کوئی بھی انسانی اتحادقائم کرنے کی طرف توجہ نہیں دے رہا حتیٰ کہ اسلام کے مرکزسعودی عرب سے بھی عسکری اتحاد کا نعرہ بلند ہوچکاہے ۔خطرناک ہتھیاروں کی دوڑ بہت تیزہوچکی ہے ،انسانوں کے منہ سے نوالہ چھین کرحکمران ایٹم بم بنانے پرخرچ کررہے ہیں ۔جس رفتار کے ساتھ غربت میں اضافہ ہورہاہے اُسے دیکھ کراُمیدکی جاسکتی ہے کہ کسی کوبھی ایٹمی ہتھیار چلانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ،دنیابھرمیں لوگ بھوک اوربیمایوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے ۔جس جنگی جنون میں انسان مبتلاہوچکا ہے واپسی ممکن نہیں پھربھی اُمیدکا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے ۔سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سی بلا ہے جس نے ماضی اورحال میں انسان کے دل سے محبت کے جذبے کونکال کر نفرت کے بیج بوئے اورپھراُسے کھاد پانی بھی مہیاء کئے ؟کائنات میں اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتیں تخلیق فرماکرہمارے لئے زندگی کا بہترین سامان پیدافرمایااورہم دنیابھر کے وسائل اپنے دامن میں سمیٹ کرآرام وسکون حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں بند کرنے کی سوچ نے انسان کو بے حد ظالم بنادیاہے جوآج دنیا پرحکمران بن چکے ہیں۔ راقم یہ کہنے پر مجبور ہے کہ گزشتہ کئی صدیوں کی طرح سال2016ء میں بھی دنیا کی حکمرانی ظلم پسند ذہنیت کے نرخے میں رہی۔ظالم حکمران کہاں سے آتے ہیں ؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت کسی بھی مسلمان کو نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بتا دیا ہے کہ جیسی قوم ہوگی ویسے ہی حکمران مسلط ہوں گے۔ ہمارے بہت سے اعمال ایسے ہیں جو ہمیں مسلمان ثابت کرتے ہیں پران کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے اعمال بھی کرتے ہیں جن کے کرنے سے ہمارے وہ اعمال ضائع ہوجاتے ہیں جو ہمیں قدرتی آفات ،ذلزلوں،وباؤں یعنی بیماریوں،قحط و مصیبت ،ظالم حکمرانوں،غیر مسلم دشمنوں، آپسی لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت سے محفوظ رکھتے ہیں۔ایسے حالات میں بیٹھ کرحکمرانوں کو بُرابھلا کہنے یا صرف یہ سوچنے سے کہ ظالم حکمران کہاں سے آتے مصیبتوں سے جان نہیں چھوٹتی ۔کیونکہ ظالم حکمران نہ تو آسمان سے گرتے ہیں ،نہ زمین کھود کر نکالے جاتے ہیں ،نہ سمندروں کی گہرایوں سے دریافت ہوتے ہیں،نہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر اُگتے ہیں اور نہ ہی کوئی خلائی مخلوق ہیں ۔یہ ظالم حکمران بھی ہماری طرح ماؤں کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں اور یہ پیدائشی ظالم بھی نہیں ہوتے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ ظالم کس طرح بن جاتے ہیں؟کیاکوئی سکول ،کالج یا یونیورسٹی ہے جو ظلم و جبر کی تربیت دیتی ہے ان کو ؟ راقم جیسی ناقص عقل سے ان سوالات کے جوابات مانگیں گے تو ان سوالات کے جوابات ملنے کی بجائے بہت سے اور سوالات جنم لیں گے جو گمراہی کی طرف بھی مائل کرسکتے ہیں ۔اس لیے بہتر یہی ہے مسلمان اپنے دین اسلام سے ان سوالات کے جوابات مانگ لیں ۔کوئی غیر مسلم بھی اسلام سے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے تواسے بھی کھلی چھٹی ہے ۔وہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی حضرت محمدؐ کوتمام جہانوں اور تمام زمانوں کے لیے رحمت بنا کربھیجا ہے ، اسلام نہ صرف انسانوں بلکہ کائنات میں موجود تمام مخلوقات کے حقوق کا نگہبان ہے،راقم بھی اوروں کی طرح قوم کو نئے سال کی مبارک باد پیش کرتاہے پر وہ سمجھ نہیں پارہاکہ آخر یہ مبارکباد کس بات کی ہے ؟سال نیاہے باقی توہرچیزصدوں پرانی ہیں ۔ بقول فیض احمد فیض
’’اے نئے سال بتا، تْجھ میں نیا پن کیا ہے؟
ہر طرف خَلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کی وہی تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ایک بات وہی
آسمان بدلا ہے افسوس، نا بدلی ہے زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں
اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے
جنوری، فروری اور مارچ میں پڑے گی سردی
اور اپریل، مئی اور جون میں ہو گی گرمی
تیرا مَن دہر میں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا
اپنی میعاد بسر کر کے چلا جائے گا
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی، شام نئی
ورنہ اِن آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
بے سبب لوگ دیتے ہیں کیوں مبارک بادیں
غالبا بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں
تیری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی
فیض نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھب کی
یقیناًنئے سال میں کوئی بات بھی نئی بات نہیں ،ہرصبح سورج نکلے گااورشام کوڈوب جائے گا،ہرسال کی طرح ہی 2017ء میں بھی کوئی پیداہوگااورکوئی رخصت ہوجائے گا،پھر بھی ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دُعاگوہیں کہ نیا سال انسانیت کیلئے خوشیوں کا پیغام لائے اورانسان جنگوں کا سامان جمع کرنے کی بجائے امن وسکون کی تلاش میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کرزندگی گزارنے کی کوشش کریں،جنگوں کاسامان تیارکرنے کی بجائے زندگی کاسامان دریافت کرنے کی کوشش کریں،انسان دشمنی چھوڑ انسانیت سے محبت کاراستہ اپنائیں