تحریر: رانا اعجاز حسین
عیسویں سال 2016 ء بھی اختتام پذپر ہوا، اور سال 2017 کا آغاز ہوچکا ہے۔ وقت کی اہمیت اور قد و قیمت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی بہت سی آیات میں اس کی قسمیں کھائی ہیں۔ سورۃ ا لعصر کی آیت نمبر2 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ قسم ہے زمانے کی انسان بڑے خسارے میں ہے۔ دوسری جگہ سورۃ الضحیٰ کی آیت نمبر3 میں ہے’’ قسم ہے دن کی روشنی کی اور رات کی جبکہ وہ قرار پکڑے۔ اسی طرح سورۃ الفجر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔‘‘ اگر غور کیا جائے توقدرت الٰہی کی طرف سے ہمیں میسر یہ منٹ ، یہ گھنٹے ، یہ سال مہلت کے ہیں ۔ کہ ہم اس حاصل وقت کی قدر کرتے ہوئے اسے قیمتی بناتے ہیں یا محض غفلت و لاپرواہی میں گنوادیتے ہیں۔ ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ہمیں یہ حاصل وقت اور یہ دنیا قطعاً عارضی ہے، میسر ان ایام کی مہلت کے بعد ہر ذی نفس نے موت کا مزہ چکھنا ہے اور آخرت کی طرف کوچ کرنا ہے ، جو مستقل اور ابدی ٹھکانہ ہے۔ با حیثیت مسلمان ہمیں وقت کو اپنی اصلاح کرنے اور دوسروں کی اصلاح کاذریعہ بننے اور نیکیاں کمانے میں صرف کرنا چاہیے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ دنیوی زندگی ، آخرت کی کھیتی کے مانند ہے۔ ہم آج جو بوئیں گے آخرت میں وہی کاٹیں گے۔ اگر ہم اپنی زندگی میں حاصل اس وقت کی قدر کرتے ہوئے اسے خیرو بھلائی کے بیج بونے میں صرف کریں گے تو کل روز قیامت ہمیں فلاح اور بھلائی کا ثمر ملے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے’’(ان سے کہا جائے گا )خوب لطف اندوزی کے ساتھ کھاؤ۔اور پیو ان (اعمال ) کے بدلے جو تم گذشتہ (زندگی) کے ایام میں آگے بھیج چکے تھے‘‘ ( سورۃ الحاقہ) ۔ جبکہ اس کے بر عکس اگر زندگی میں وقت کی قدر نہ کی جائے اور اسے غفلت ، سستی و کاہلی میں گزارتے ہوئے برائی و شر فتنہ و فساد کی نذر کر دیا جائے تو ہمارے لیے دونوں جہانوں میں خسارہ ہے۔ غافلوں اور ظالموں کے لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہو گا’’ کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو شخص نصیحت حاصل کرنا چاہتا ، وہ سوچ سکتا تھا۔ اور پھر تمہارے پاس ڈر سنانے والا بھی آ چکا تھا۔ پس اب عذاب کا مزا چکھو۔ سو ظالموں کے لئے کوئی مدد گار نہ ہو گا۔‘‘
ہماری گھڑیاں، جن سے سیکنڈ، منٹ، گھنٹے، دن، مہینے اور سال کا حساب لگایا جاتا ہے، نظام شمسی کی بنیاد پر بنائی جاتی ہیں۔ جسے ہم ’’ایک گھنٹہ‘‘ کہتے ہیں، وہ اصل میں ہماری دنیا کا اپنے محور پر 15 ڈگری کا چکر کاٹنے کا دوسرا نام ہے، جسے ہم ایک سال کہتے ہیں۔ وہ ہماری دنیا کے سورج کے چاروں طرف ایک پھیرا لگانے کا نام ہے، یہ وقت مقررہ معیار سے گزر رہا ہے ۔اسلام میں وقت کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ جامع ترمذی میں ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا’’ قیامت کے دن بندہ ( اللہ کی بارگاہ ) میں اس وقت تک کھڑا رہے گاکہ جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے گا۔ 1۔ اس نے اپنی جوانی کن کاموں میں گزاری۔2۔ اس نے اپنے علم پر کتنا عمل کیا ۔ 3۔اس نے مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ 4۔ اس نے اپنا بدن کس کام میں کھپائے رکھا۔‘‘ مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو۔ بڑھاپے سے پہلے جوانی کو، بیماری سے پہلے صحت کو ، محتاجی سے پہلے تو نگری کو، مصروفیت سے پہلے فراغت کو، اور موت سے پہلے زندگی کو۔ ‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور فرمان ہے ’’دو نعمتیں ایسی ہیں، جن کے سلسلے میں بہت سے لوگ دھوکے میں ہیں ایک صحت و تندرستی اور دوسرے فارغ اوقات۔ ‘‘
عامر بن قیس ایک زاہد تابعی تھا،ایک شخص نے ان سے کہا ، آ بیٹھ کر باتیں کریں،انہوں نے جواب میں کہا کہ پھر سورج کو بھی ٹھہرا لو۔‘‘ امام ابن جریر طبری ہر روز چودہ صفحات لکھ لیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی عمر کا ایک لمحہ بھی فائدے اور استغفار کے بغیر نہیں گزارا۔ البیرونی کے شوق علم کا یہ عالم تھاکہ حالت مرض میں مرنے سے چند منٹ پیش تر وہ ایک فقیہ سے جو ان کی مزاج پرسی کیلئے آیا تھاعلم الفرائض کا ایک مسئلہ پوچھ رہے تھے۔ امام الحرمین میں ابو المعالی عبدالملک جو مشہور متکلم امام غزالی کے استاد تھے، فرمایا کرتے تھے کہ میں سونے اور کھانے کا عادی نہیں ہوں،مجھے دن اور رات میں جب نیند آتی ہے سو جاتا ہوں،اور بھوک لگے تو کھا لیتا ہوں،ان کا اوڑھنا بچھونا ، پڑھنا اور پڑھانا ہی تھا۔ امام فخر الدین رازی کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد ایک سو کم نہ ہو گی صرف تفسیر کبیر تیس جلدوں میں ہے وہ کہا کرتے تھے کہ کھانے پینے میں جو وقت ضائع ہوتا ہے مجھے اس پر افسوس ہوتا ہے۔ علامہ شہاب الدین محمود آلو سی مفسر قرآن نے اپنی رات کے اوقات تین حصوں میں تقسیم کر رکھے تھے ،پہلے حصے میں آرام و استراحت کرتے دوسرے میں اللہ تعالیٰ کو یا د کرتے ،تیسرے میں لکھنے پڑھنے کا کام کرتے تھے۔ آج سائنس و ٹیکنالوجی نے جہاں ہمیں بے شمار کارآمد چیزیں دی ہیں وہیں وقت کے ضیاع کے بھی ایسے نوع بہ نوع آلات فراہم کئے ہیں کہ امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ ان کے غلط استعمال میں اپنا قیمتی وقت اس طرح ضائع کر رہا ہے جس طرح تیز دھوپ میں برف کی ڈھلی پگھل کر ضائع ہوتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وقت کا صحیح استعمال کیا جائے، اور ہر لمحہ سے بھر پور استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ وقت کا ذیادہ ترحصہ عبادات و ذکر الٰہی میں مشغول رہ کر گزارہ جائے، فارغ اوقات کو چغلی ، کینہ وبغض جیسی خرافات کی بجائے تلاوت قرآن کریم، تسبیحات ، ذکر واذکار ،درود شریف اور استغفاراور اچھی کتب کے مطالعہ میں صرف کیا جائے۔تاکہ نفس کی اصلاح ہو اور دونوں جہانوں کی کامیابی اور خیر و برکت حاصل ہوسکے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو وقت کی قدر کرنے، وقت کو قیمتی بناتے ہوئے نیک کاموں میں صرف کرنیکی توفیق عطاء فرمائے، اور ہمیں وقت حاضر کے ہر طرح کے شرور و فتن سے محفوظ رکھے ،آمین۔ قارئین کرام کو نیا سال مبارک ہو۔