تحریر:حافظ محمد نذیر صدیقی
آزاد کشمیر اس حوالے سے بھی بد قسمت ریاست ہے کہ یہاں سانپوں کو دودھ پلانے کی روایت ہے اور با لخصوص میرپور جو تارکین وطن کا شہر ہے جس شہر کے باسی دنیا بھر میں صرف آباد نہیں بلکہ ہے شعبے میں ان کا ایک بین الوقوامی کردار بھی ہے ،اس میرپور میں ترقیاتئی ادارہ میرپور ڈویلپمنٹ اتھارٹی گزشتہ کئی دھائیوں سے کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے اور اس ادارے نے بد عنوانی کی ایسی گنگا بہا دی ہے کہ جس میں ہر شعبے کے لوگوں نے صرف ہاتھ ہی نہیں دھوئے بلکہ غسل بھی فرمایا ہے ایم ڈی اے کی کرپشن میں لت پت صرف بیوروکرٹیس اور ملازمین ہی نہیں بلکہ سیاست دان ،صحافی اور دیگر سماجی شخصیات بھی ہیں کہ اگر شفاف احتساب ہوتو یہ سارا کچا چھٹا کھل سکتا ہے یہاں ہر یہ بات بتانا بھی بہت ضروری ہے کہ کئی اچھے آفیسر رہے اور کئی دیانت دار ملازمین بھی موجود ہیں سب برا نہیں ہے لیکن بہت کچھ بہت برا ہے یہاں کہ ملازمین،بیوروکریٹس اور دیگر اہلکاران جو کل تک پیدل تھے آج ان کی جائیدادیں آزاد کشمیر میں ہی نہیں پاکستان کے بڑے شہروں اور بیرون ممالک بھی ہیں اور ان میں سے کچھ نیا سال منانے اور شباب و شراب کی محفلیں سجانے دوبئی اور دیگر ممالک میں جاتے ہیں یہ عیاشیاں میرپور میں ڈالے گئے ڈاکوں کے پیسوں سے ہوتی ہیں اور اب فراڈ اس ادارے کا ٹریڈمارک بن چکا ہے یہاں آنے والے اکثر آفیسران کو یہاں سے جانے کا جی نہیں چاہتا چند قلم کاروں مقامی لینڈ مافیا اور بد عنوان اہلکاروں سے مل کر یہاں ہزاروں فراڈ کیے گئے ہیں جعلی ڈگڑیاں،جعلی باشندے سرٹیفکیٹ کی بنا پر یہاں نوکریاں بھی حاصل کی گئی ہیں اور غیر ریاستیوں کو الاٹ منٹ بھی کی گئی ہے با لخصوص تارکین وطن کے پلاٹوں کو حاص طور پر شکار کیا گیا ہے مقامی سائلین سر پٹخ پٹخ کر دیوانے ہو جاتے ہیں مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں کھلی کچہریوں میں شکایات میں انبار لگ جاتے ہیں عدالتوں میں سینکڑوں مقدمات ہیں مگر مداوا یا مرہم کسی کے پاس نہیں سابق ڈی جی راجہ امجد پرویز اور اسٹیٹ آفیسر عمران شاہین کے دور میں تو ایم ڈی اے میں روز ہی دنگ ہوتے رہے ہیں کبھی ملازمین نے ہڑتالیں کیں کبھی سائلین نے احتجاج کیا سابق وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے احکامات کو بھی آفیسران کھو کھاتے میں ڈالتے رہے امجد پرویز کے درباری ہر وقت ان کے دفتر میں انہیں مس گائیڈ کرتے رہے اور مایوسیوں کا یو ں ہی ایک اور سال بیت گیا سال 2016ء بھی کرپشن کا سال رہا عوام سڑکوں ،چوراہوں اور دفاتر میں حصول انصاف کیلئے مارے مارے پھرتے رہے اور منظور نظر ایم ڈی اے مافیا عیاشیاں کرتا رہا قائم مقام وزیراعظم کی کھلی کچہری میں بھی سابق ڈی جی نے جو وعدے کیے تھے وہ بھی پورے نہ کیے گئے تاہم چند قلم فروشوں سے خوشامدی قصیدے لکھوا کر سب ٹھیک کی رپورٹ دی جاتی رہی لیکن سال 2017ء کے آغاز کیساتھ ہی ایم ڈی اے نے ایک بار پھر ڈان کا روپ دھاڑا اور سال کاآغاز ایک شریف شہری کا کروڑوں روپے کا پلازہ زمین بوس کرکے کیا تارکین وطن سرمایہ کارپلازہ مالک نے ہر جگہ احتجاج کیا عوامی اور سماجی حلقوں نے مذمت کی مگر کسی کی نہ سنی گئی اور مذکورہ پلازہ کیساتھ ملحقہ پلاٹوں پر ایم ڈی اے کی ناجائز تجاوزات اور قبضہ برقرار رہاتاہم گزشتہ روز تو خد ہی کر دی گئی جبکہ وکلاء اور ایم ڈی اے کے درمیان بڑا تصادم ہوا کرپشن کو بے نقاب کرنے اور با لخصوص عمران شاہین کی من مانیاں ختم کرنے کیلئے جب پر امن احتجاج کیا جا رہا تھا تو آفیسران کی ہٹ دھرمی کیوجہ سے یہ دنگل میں بدل گیا وکلاء اور پولیس نے چھ افراد زخمی ہو گئے اور دفاتر کو بھی نقصان پہنچا وکلاء اور ایم ڈی اے ملازمین نے ایک دوسرے کیخلاف توہین امیز نعرے بازی کی اور پولیس کی مداخلت کیوجہ سے کوئی جانی نقصان تو نہ ہوا لیکن مین شاہرا کئی گھنٹوں تک بلاک رہی شہریوں کو کئی گھنٹوں تک ازیت کا سامنا کرنا پڑا خوب جگ ہنسائی ہوئی جس کے بعد ہونے والے مذاکرات میں کمشنر میرپور ڈویثرن نے یہ فیصلہ کیا کہ تمام معاملات کو قانون کے دائرے کے اندر رہ کر حل کیا جائیگا کرپٹ عناصر کو کٹھرے میں لایا جائیگا اور عوامی شکایات کا ازالہ کیا جائیگا احتجاج کے دوران مظاہرین کا یہ مطالبہ تھا کہ سابق ڈی جی ایم ڈی اے امجد پرویز علی خان اور عمران شاہین میرپور کے ناپسند دیدہ آفیسران تھے اس کے باوجود ان کو میرپور پر پسلت رکھا گیا امجد پرویز سے تو جان چھوٹ چکی ہے لیکن عمران شاہین کسی بھی صورت شریف شہریوں کی جان بخشی نہیں کررہے ہیں عمران شاہین سے فوری طور پر ایم ڈی اے کو آزاد کروا یا جائے ،قارئین یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ حکومتوں کو قرضہ دینے والا اور انتہائی منافع بخش ادارہ آج کنگال ہو چکا ہے کرپشن کی نحوست کیوجہ سے اب کو تنخوائیں اور پنشن دینے کے پیسے بھی نہیں ہوتے ہیں نااتفاقی اس قدر ہے کہ ملازمین بھی آپس میں لڑتے رہتے ہیں میرپور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا انتہائی اختصار کیساتھ یہ تذکرہ اس لئے کیا ہے کہ شائد حکام بالا اور ذمہ داران کو کچھ ہوش آجائے موجودہ وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے ایم ڈی اے کوکرپشن سے پاک کرنے کے بڑے بڑے دعوے اور وعدے کیے تھے مگر وہ یہاں سے مکھیوں کا تدارک بھی نہ کر سکے اور مافیا اس ادارے میں یوں منڈالاتا ہے جیسے مری ہوئی بھینس پر گدھ آتے ہیں کرپشن کی یہ کہانی ایک دو سال کی نہیں ہے بلکہ یہ تین دہائیوں کو فسانہ درد ہے تین دہائی کی اس بہتی گنگا کا اگر شروع دن سے لے کر آج تک کا احتساب کیا جائے تو کئی شرفا بے نقاب ہو جائیں گے کسی دور میں یہاں صرف شراب کی بوتل پر بھی پلاٹ مل جایا کرتے تھے اور اس ادارے کے سرمائے سے روزانہ شباب و کباب کی محفلیں سجتی رہی ہیں ایم ڈی اے کی کرپشن سے تمام سیاسی پارٹیاں سابق و موجودہ حکمران اور با ضمیر آفیسران سب واقف ہیں لیکن یہاں کرپشن کی جڑیں اس قدر مضبوط ہیں کہ کسی میں اپریشن کلین اپ کرنے کی ہمت نہیں واقفان حال یہ بھی کہتے ہیں کہ چونکہ یہاں مل بانٹ کے کھانے کا قانون یہاں رائج ہے اور مار تاڑ کا حصہ اوپر تک جاتا ہے اس لئے اس حمام میں سب ننگے ہیں بکاؤ قلم کاروں سے لے کر قافلہ سالاروں تک سب اس بہتی گنگا سے فیض یاب ہو چکے ہیں اس لئے حالات بدلنا بہت مشکل ہے لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایم ڈی اے مافیا اس قدر تگڑا ہو چکا ہے کہ یہ حکومتوں کو بھی للکارتا ہے شنید یہ ہے کہ اس مافیا نے میرپور میں نو تعینات شدہ کمشنر سردار ظفر محمود خان اور ڈپٹی کمشنر میرپور انصر یعقوب کو ناکام بنانے کیلئے صف بندی کر لی ہے حالات خراب کرنے اور اداروں کو آپس میں ٹکرانے کی سازش بھی تیار ہے جس پر عمل درآمد کی مثال کل ہم نے دیکھ لی دوسری طرف بے بس سائلین ہیں جن کا اللہ کے سوا کوئی آسرا نہیں اور وہ دن رات کرپٹ عناصر کیلئے بددعائیں کرتے ہیں۔