تحریر۔۔۔ شاہد شکیل
دنیا بھر میں ہر رنگ وروپ اور نسل کے انسان زندگی بسر کر رہے ہیں ان سب میں بظاہر کوئی خاص متضاد نہیں لیکن نیچر البتہ مختلف ہے ،کہتے ہیں پیدائشی معذور انسان کی ایک رگ زیادہ ہوتی اور وہ عام انسانوں سے قدرے مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی خصوصیت یعنی معذوری کے سبب زیادہ ذہین ہوتا ہے ،ذہانت کی بھی کئی اقسام ہوتی ہیں اور یہ کوئی ضروری نہیں کہ اگر کوئی انسان تخلیقی عوامل کو اپنی ذہانت سے پایہ تکمیل پہنچاتا ہے تو وہ دنیا کے تمام کام مناسب یا درست طریقے سے حل کرتا ہوگا ایک مثال بھلکڑ پروفیسر کی بھی دی جاتی ہے کہ وہ اکثر بھول بھلیوں میں کھوئے رہتے ہیں ۔انسان ویسے تو سب برابر ہیں لیکن لاکھوں کروڑوں ایسے بھی ہیں جو انسان کے نام پر سیاہ دھبہ ہیں یعنی انتہائی اکھڑ مزاج ،نک چڑھے،بد تمیز،بد اخلاق اور احساس سے محروم کی شناخت کرنا آج کل کوئی مشکل کام نہیں ایسے افراد بھلے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچائیں لیکن اپنے رویئے سے دوسرے انسانوں کے دلوں کو چیر کر رکھ دیتے ہیں اور انہیں کوئی پشیمانی ،افسوس یا دکھ تک نہیں ہوتا کیونکہ ان کے اندر احساس نام کی رگ یا حس سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی۔دوسری طرف اسی دنیا میں ہزاروں لاکھوں ایسے بھی انسان ہیں جو معمولی اور ذرا سی بات پر اتنا دکھی اور جذباتی ہو جاتے ہیں جیسے ان کی دنیا ہی اجڑ گئی ہو ،سب کچھ کھو بیٹھے ہوں ،حساس لوگ آج کل بہت کم دستیاب ہیں یعنی بھوسے کے ڈھیر میں براؤن سوئی تلاش کرنے کے مترادف ہے۔سینسیٹو لوگ ہر شے کو بہت باریک بینی سے دیکھتے ہیں بلکہ دل کے کونے میں خاص طور پر حس تاحیات فکس ہوتی ہے ۔ روزمرہ زندگی میں انہیں کچھ زیادہ ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ان کی یہی خاص حس انہیں قدم قدم پر طاقت اور ہمت بخشتی ہے کہ وہ کسی حالت میں بھی حدود کو تجاوز نہ کریں اپنے رویئے میں سختی ،اکھڑ پن، یا سنگدلی کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ دماغ کے علاوہ دل کی گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد فیصلہ کریں ،ایسے لوگ مشکلات میں گھرے رہنے کے باوجود مطمئن رہتے ہیں اور بدتمیز کسی کی پرواہ کئے بغیر اپنے معاملات خوش اصلوبی سے حل کرتے ہیں لیکن ان کا ضمیر انہیں کہیں نہ کہیں ملامت ضرور کرتا ہے۔برلن سنٹرل سٹیشن کے ویٹنگ روم میں ایک نوجوان اپنی ٹرین کا انتظار کر رہا تھا سر پر ہیڈ سیٹ جمائے میوزک کی سر تال سے محفوظ ہوتے ہوئے کبھی کبھی جھوم کر دھن میں سر ہلا تا ادھر ادھر بھی دیکھتا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا اسکے قریب کوڑے دان میں ادھ کھایا سینڈوچ (ترکی ڈونر) بھاس مار رہا تھا اسکی بدبو اسے ناگوار گزر رہی تھی اور سر کو زور سے ہلاتا سامنے ایک خاتون اپنے لمبے چوڑے سمارٹ فون کی نمائش کرتی ہوئی کسی سے چپڑ چپڑ کر رہی تھی اور بچہ کنڈر ویگن میں چیخ رہا تھا ،دیوار پر لگے ٹی وی سے نیوز نشر ہو رہی تھیں ہر دوچار منٹ بعد ویٹنگ روم کا دروازہ کھلتا اور خود کار نظام سے بند ہو جاتا دائیں طرف تین لڑکے گٹنوں سے پھٹی اور ادھڑی ہوئی پتلونیں پہنے ایک دوسرے سے محو گفتگو تھے اور ان کے عقب میں ایک عمر رسیدہ جوڑا لاٹھیوں کے سہارے کھڑا سب کو خاموشی سے دیکھ رہا تھا لیکن ان کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں ایسی ہی سوچ اس نوجوان کی بھی تھی ،اناؤنسمنٹ ہوتی کہ فلاں پلیٹ فارم سے فلاں نمبر کی ٹرین روانہ ہونے والی ہے یا آمد ہو گی گہما گہمی اور افراتفری کا سماں تھا ،نوجوان سے برداشت نہ ہوا اور اٹھ کر عمر رسیدہ جوڑے کے پاس پہنچا اور انہیں سہارا دے کر اپنی سیٹ تک لایا اور یہ سوچتا ہوا انتظار گاہ سے باہر چلا گیا کہ کیا لوگ ہیں ،کیا یہ سب انسان ہیں،ان کو انسان کہنا
انسانیت کی توہین ہے ،کیوں نہیں انسانوں کی طرح زندگی بسر کر سکتے کیوں شور شرابا مچا رکھا ہے ،کیوں کسی نے آدھا سینڈوچ پیپر بوکس میں پھینکا ہے کیوں خاتون کو اپنے بچے کی پرواہ نہیں کیوں نہیں بوڑھوں کو جگہ دی گئی کیوں نیوز پر دہشت گردی کی ہی خبریں دکھائی جاتی ہیں اور بھی بہت کچھ سوچتا اور برداشت کرتا رہا کیونکہ وہ ایک حساس انسان تھاوہ جذبات ، احسا س اور مورال سے عاری دنیا سے تعلق نہیں رکھنا چاہتا تھا لیکن کسی کے ذاتی معاملات میں بھی دخل اندازی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ہائی سینسی بیلیٹی ہر انسان کی شخصیت کا اہم حصہ اور خاص جز ہوتی ہے لیکن کئی انسانوں کے اندر بہت وسیع سپیکٹرم موجود ہوتا ہے وہ عام طور پر ماحول اور معیار کی زیادہ سے زیادہ معلومات رکھتے اور گہرائی سے ہر شے کا مطالعہ کرتے ہیں مثلاً جیسے کہ کمپیوٹر میں جتنا زیادہ ڈیٹا جمع کرنے کی صلاحیت ہوگی اتنا زیادہ مواد سیو کرے گا اور ایسی مثال ایک حساس انسان کی بھی ہے کیونکہ وہ عام انسان سے قدرے مختلف جذبات اور احساسات رکھتا ہے ،حساس افراد کی خاص نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ بہت جلد آبدیدہ ہوجاتے ہیں اور کسی کے آنسو بھی نہیں دیکھ سکتے کسی بچے، بوڑھے یا خاتون پر ظلم و تشدد برداشت نہیں کر سکتے ۔ہائیپر سینسی ٹیوٹی کا وراثت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن اکثر و بیشتر حساس طبیعت آباؤ اجداد سے بھی منتقل ہو سکتی ہے ،حساس افراد کا ادراکی فلٹر مختلف طریقے سے کام کرتا ہے کیونکہ نیورو بائیولوجی کا پس منظر معمول سے زیادہ سرگرم عمل رہتا ہے اور دماغ کے حساس خلیات میں تمام عوامل دیکھنے اور سننے کا مخصوص انداز موجود ہوتا ہے فعال مقناطیسی امیجنگ سے حساس نظام مختلف انداز سے انفارمیشن مجتمع کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حساس لوگ عام انسانوں سے زیادہ ایکٹو ہوتے ہیں انکا ادراکی فلٹر حساس سکریننگ کے بعد ہر شے کو منظم اور مکمل کنٹرول کرتا ہے۔امریکی ماہر نفسیات نے سینسوری پروسیسنگ سینسٹویٹی کے ذریعے کئی ٹیسٹ کئے اور نتائج سے ظاہر ہوا کہ پندرہ سے بیس فیصد افراد ہی حساس ہوتے ہیں یعنی ہائپر سینسٹیو ہوتے ہیں،ایسے افراد غیر معمولی ہمدردی رکھتے ہیں ان کے اندر جذبات کا سمندر موجود ہوتا ہے اور کئی معاملات کو سفنج کی طرح اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں معمولی بات پر رنجیدہ ہونا اور دباؤ کی بجائے افہام و تفہیم کے ساتھ گہرائی سے غور و فکر کے بعد ہی فیصلے کرتے ہیں۔آج کل سننے میں آرہا ہے کہ دنیا بے حس ہو گئی ہے ، ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم خود کتنے حساس ہیں ؟۔