اسلام آباد (یواین پی) سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم کے صاحبزادوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل کے آغاز میں بتایا کہ جتنا ریکارڈ موجود ہے اس کے مطابق جواب دونگا ۔ 40سے 45سال کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں اور1999ءکے مارشل لاءکی وجہ سے خاندانی دستاویز ات ضائع کو گئیں ۔وزیر اعظم کے خلاف کوئی چار ج نہیں اس لیے بچوں کیخلاف بھی کوئی کارروائی ممکن نہیں ۔ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہشروع دن سے ہم جس مرحلے کا انتظار کر رہے تھے وہ آچکا ہے ، آپ کو اپنا کیس ثابت کرنا ہے ۔میک آر بریک دی کیس کا مرحلہ آچکا ہے ۔کوئی فریق بھی مکمل سچ سامنے نہیں لا رہا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کے سامنے 2ہفتے کے وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہونے پر حسن اور حسین نواز کے وکیل نے موقف اپنایا کہ میرے قانونی جواب 3بنیادوں پر ہیں ، پاناما کیس کا پہلا پہلو وزیر اعظم کی تقاریر اور انٹرویو ز ہیں جبکہ دوسرا پہلو سرکاری ریکارڈ اور تیسرا وزیر اعظم کے اقدامات ہیں ۔ سپریم کورٹ خود انکوائری نہیں کرسکتی صرف کمیشن بنا ئے گئے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا پہلے دلائل مکمل کر یں اور اس کے بعد قانونی سوالوں کے جواب دیں ، حسین نواز کی لندن فلیٹس کی ملکیت پر کوئی سوال نہیں مگر کیا یہ وضاحت کی جا سکتی ہے کہ یہ فلیٹس کیسے خریدے گئے ؟تو وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ حسن نواز نے لندن فلیٹس داداکے کاروبار کے ذریعے لیے اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عہدے کا استعمال کر کے لندن فلیٹس خریدے گئے ۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل ( جمعرات ) تک ملتوی کردی ۔
سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ یہ ثابت ہے کہ 1999ءمیں فلیٹس وزیرا عظم تو کیا شریف خاندان کی ملکیت بھی نہیں تھے اور 1993ءسے 1996ءکے دوران الثانی خاندان نے یہ فلیٹس خریدے اور جنوری 2006ءمیں الثانی خاندان نے فلیٹ کی بیریئر سرٹیفکیٹ حسین نوا ز کے حوالے کیے تو جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ حسین نواز نے لندن فلیٹس کی ملکیت تسلیم کی ہے اس لیے ملکیت پر کوئی تنازع نہیں مگر یہ بھی وضاحت مانگی جا سکتی ہے کہ یہ فلیٹس بچوں نے کیسے خریدے ۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ اس کا ریکار ڈ کہاں ہے اور کب پیش کرینگے ؟ آپ پہلے دن سے ادھر ادھر کی چھلانگیں لگا رہے ہیں ، دستاویز ہیں تو دکھائیں ۔ایک ناں ایک دن تو شواہد سامنے آنا ہی ہیں ، شواہد ہیں تو پیش کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئیے۔
سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ منروا سروسز فلیٹس کی دیکھ بھال کرتی ہے ، حقائق کے ساتھ جوا نہیں کھیلوں گا، قطری خاندان سے سیٹلمنٹ کے بعد کمپنیوں کے سرٹیفکیٹ ملے توجسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ معاملہ ایمانداری کا ہے ، کیا سیٹلمنٹ حماد بن جاسم سے ہوئی یا الثانی خاندان سے ؟تو وکیل نے جواب دیا کہ سیٹلمنٹ محمد بن جاسم سے ہوئی ، محمد بن جاسم کے بڑے بھائی 1991ءاور والد جاسم 1999ءمیں وفات پا گئے تھے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا محمد بن جاسم سے کمپنیوں کے سرٹیفکیٹس حسین نواز کو کیسے ملے ؟ قطری خط میں نہیں لکھا کہ سرٹیفکیٹ حسین نواز کو دیے ۔شروع دن سے ہم جس مرحلے کا انتظار کر رہے تھے وہ آچکا ہے ، آپ کو اپنا کیس ثابت کرنا ہے ۔میک آر بریک دی کیس کا مرحلہ آچکا ہے ۔حسین نواز نے کہا کہ دادا نے فلیٹس ان کی تعلیم کیلئے خریدے ،دو طالب علموں کے لئے لندن میں 4فلیٹس کا بندوبست کیا گیا تو سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ تیسرا طالب علم حمزہ شبہاز بھی تھا جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ حسین نواز کو ساری باتیں بتانے والا کون ہے ؟ آج اپ ایک اور طالب علم سامنے لے آئے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یقین سے نہیں کہہ سکتا میرا خیال ہے حمزہ شہباز بھی لندن میں طالبعلم تھے ۔
وزیر اعظم کے صاحبزادوں کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ منروا کی خدمات جنوری 2006ءکے بعد حاصل کی گئیں ، جولائی 2006ءمیں شیئرز منسوخ کر کے منروا کے نام پر جاری ہوئے جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ منروا سے پہلے کون سروسز فراہم کرتا تھا .