تحریر: رانا اعجاز حسین
حسد ایک ایسا مرض ہے جس میں انسان از خود مبتلا ہوکراپنی خوشگوار زندگی کو اجیرن بنالیتا ہے ، اور اس طرح دوسروں کی ترقی و کامیابی سے ناخوش ہوئے ہوئے نہ صرف اپنی صلاحیتوں میں کمی کرلیتا ہے بلکہ یہ نفسیاتی اذیت دنیا و آخرت میں خسارے کا باعث بنتی ہے ۔ آج کے معاشرے میں حسد، کدورت اور عداوت عام ہو چکی ہے، بلاشبہ یہ وہ منفی جذبے ہیں جنھیں مہمیز دے کر شیطان، معاملہ جدال و قتال تک پہنچا دیتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد سب سے پہلے حسد کرنے والا ابلیس ہے جوکہ حاسدین کا قائد ہے، اسی وجہ سے قرآن کریم میں حسد کرنے والے کے شر سے اللہ کی پناہ مانگنے کی تلقین کی گئی ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم ) آپ کہیے میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں ہر اس چیز کی برائی سے جو اس نے پیدا کی ہے، اور اندھیری رات کی برائی سے جب کہ اس کا اندھیرا پھیل جائے، اور گرہ لگا کر ان میں پھونکنے والیوں کی برائی سے، اور حسد کرنے والے کی برائی سے کہ جب وہ حسد کرے‘‘( سورۃ ا لفلق ) ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی احادیث مبارکہ میں حسد کی مذموم بیماری و عادت سے بچنے کی وصیت فرمائی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’حسد نیکیوں کو ایسے کھاجاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے، اور صدقہ گناہ کو ایسے مٹادیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھادیتا ہے‘‘ ( ابن ماجہ)۔ ایک اور حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ تم گمان سے بچو ، اس لیے کہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے، تم آپس میں حسد نہ کیا کرو، جاسوسی نہ کیا کرو، بغض نہ رکھا کرو، بے رخی نہ برتا کرو، دام بڑھانے کے لئے بولی نہ لگایا کرو، بلکہ اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو‘‘ ( متفق علیہ)۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کافرمان ہے ’’آپس میں حسد نہ کرو اور قطع تعلقی نہ کروایک دوسرے سے بغض نہ رکھو ایک دوسرے سے دشمنی نہ کرو اور اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بنے رہو‘‘ (صحیح مسلم)۔ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم میں گذشتہ اقوام کی بیماریاں در آئیں گی، جن میں سے حسد اور بغض بھی ہے اور یہ مونڈھ دینے والی ہوں گی، یہ بال نہیں بلکہ دین کا صفایا کردینے والی ہیں ‘‘ ( ترمذی )۔ حضرت عبداللہ بن بسررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’حسد کرنے والا، چغل خور اور کاہن میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتا ،اور نہ میرا اس کے ساتھ تعلق ہے، پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃالاحزاب کی یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی (ترجمہ)’’وہ لوگ جو اذیت پہنچاتے ہیں ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں کو حالانکہ انہوں نے ایساکوئی(برا)کام نہیں کیا توان(اذیت پہنچانے والے)لوگوں نے اپنے سروں پربہتان باندھنے اور کھلے گناہ کا بوجھ اٹھا لیا‘‘ حضرت عبداللہ بن کعب اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ’’دو بھوکے بھیڑئیے جو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دئیے گئے ہوں وہ بکریوں کا اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال کی حرص اور حسد مسلمان کے دین کا نقصان کرتے ہیں‘‘۔
حسد کے لغوی معنی کھجلانے اورکھوکھلا کرنے، اور اصطلاحی معنی صاحب نعمت سے نعمتوں کے زوال کی تمنا کرنے کے ہیں۔ حسد کو حسد اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ حاسد کے دل کو اندر سے کھوکھلا بنادیتا ہے۔حسد کی مختلف شکلیں ہیں مثلاً کسی کی خوشحالی سے حسد، کسی کے اچھے کاروبار سے حسد ، کسی کی محنت کی بدولت کاروبار میں ترقی سے حسد، تعلیم یا ملازمت میں ترقی سے حسد، کسی کی اچھی شکل و صورت یا شخصیت سے حسد ، کسی کی اچھی اولا د سے حسد، کسی کی شہرت ،عزت، قابلیت یا عہدے سے حسد، کسی کے مکان، جائداد اور دیگر سا مان تعیش سے حسد، کسی کی صحت سے حسد، کسی کے اچھے کپڑوںیا زیورات سے حسد۔ درحقیقت حسد ایک عذاب ہے جو دنیا اور دین دونوں میں نقصان دہ ہے، کیونکہ حسد اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی تقسیم کے بارے میں اظہار ناراضگی ہے اور جو چیزیں ربّ ذوالجلال نے اپنے بندے کو عنایت کی ہیں حاسد درحقیقت ان سے انکار کرتا ہے اور اس جلن میں ابلیس کا شریک کاربن جاتا ہے، وہ لوگوں کی تباہی اور بربادی چاہتا ہے، اپنی بھلائی کے لیے کوشش نہیں کرتا، کیوں کہ رات دن دوسروں کی بربادی کے غور و فکر کی وجہ سے اتنا موقع ہی نہیں ملتا کہ اپنی ترقی کے لیے سوچ بچار کرسکے۔ اس طرح وہ سست اور کاہل ہوجاتا ہے اور یہ سستی اس کو اللہ کی نعمتوں سے محروم کردیتی ہے۔ اور جب اپنی بری حرکت کی وجہ سے اللہ کی نعمتوں سے محروم ہوجاتا ہے تو وہ دوسروں کی آسودگی پر جلتا ہے اور اپنی بربادی کی طرح ان کی بربادی کی آرزو کرنے لگتا ہے۔ کبھی ان کی کھلم کھلا غیبتیں اور چغلیاں کرتا ہے، ناحق شکایتیں کرتا ہے، تہمتیں اور بہتان باندھتا ہے اور طرح طرح کی تکلیف اور اذیتیں پہنچانے میں مصروف رہتا ہے۔ بعض اوقات غرور اور تکبر بھی حسد کا سبب ہوتا ہے بالخصوص ان لوگوں کے لئے جو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دوسروں کی کامیابیوں سے جلتے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی ہر نعمت اور کامیابی پر انکی اجارہ داری اور انکا حق ہے۔اس سے نمٹنے کے لئے تکبر سے نجات ضروری ہے ، انسان کا تکبر اسے جہنم میں لے جاسکتا اور جنت کی ابدی نعمتوں سے محروم کرسکتا ہے۔لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ دنیا وی نعمتوں کو قطعاً راضی جانتے ہوئے ان کی قربانی پر اکتفا کرلیا جائے، کیونکہ حسد، بغض، عناد، کینہ، نفاق اور لالچ، ایسی چیزیں ہیں جو نقصان کے علاوہ کچھ نہیں دیتیں، اسی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع فرمایا ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا’’ میرے بچے، اگر تم سے ہو سکے تو صبح و شام اس طرح گزارو کہ تمھارے دل میں کسی کی طرف سے کوئی میل اور کھوٹ نہ ہو۔ اور پھر فرمایامیرے بچے، یہ (دل صاف رکھنا) میری سنت ہے۔ جس نے میری سنت سے محبت رکھی (اور اس پر چلا) وہی میری محبت رکھتا ہے، اور جو مجھ سے محبت رکھتا ہے وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا‘‘ (ترمذی)۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا یا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کون سا انسان افضل ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر وہ آدمی جو مخموم القلب اور زبان کا سچا ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ نے عرض کیا یارسول اللہ سچے آدمی کو ہم پہچانتے ہیں لیکن یہ مخموم القلب کون ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’وہ جو پرہیزگار، پاکباز ہو اس میں نہ گناہ ہو نہ بغاوت، نہ کھوٹ اور نہ حسد‘‘ ۔ لہٰذا دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لئے حسد کی بیماری کو جاننا اور اس سے بچنے کی تدابیر اختیا ر کرنا انتہائی ضروری ہے۔ مادی چیزیں جو انسان کو حسد پر مجبور کرتی ہیں انہیں قطعی عارضی اور کمتر سمجھتے ہوئے جنت کی نعمتوں کو یاد رکھنا چاہئے ۔ گناہوں سے استغفار کرتے ہوئے، محسود(جس سے حسد ہے) کے لئے دعا کر نا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کو ان تما م امور میں مزید کامیابیاں دے، تاکہ ہمارا دل حسد ، کینہ و بغض سے صاف ہو، اس طرح رحمت الٰہی مہربان ہوگی اور وہ نعمتیں ہمیں میسر آ ئیں گی جن کی ہم تمنا رکھتے ہیں، بے شک ربّ رحمن کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ۔