لال شہباز قلندر

Published on February 17, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 569)      No Comments

تحریر۔۔ سید کمال حسین شاہKamal
ا ولیاء اللہ نے اسلام کی تبلیغ واشاعت میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ انسانوں کی رہنمائی کی اورانہیں خوابِ غفلت سے بیدار کیا۔ یہ اللہ کے ایسے بندے تھے جو فا تحینِ زمانہ تھے لیکن انہوں نے لشکر کشی یا تلوار استعمال نہیں کی۔ ان کا طریقہ یہ تھا کہ انہوں نے محبت، انسانیت، مساوات، اخوت، رواداری اور وسیع النظّری سے لوگوں کے قلوب میں اپنی جگہ بنائی
ب اب الاسلام! سندھ میں ہزاروں بزرگانِ دین، اولیاء
اللہ اور صوفیائے کرام کا سلسلۂ رشد وہدایت فیوض وبرکات جاری رہا ، ان میں حضرت سیدناشیخ عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر ؒ کی شخصیت بہت نمایاں نظر آتی ہے ۔
لال شہباز قلندر جن کا اصل نام سید عثمان مروندی تھا، سندھ میں مدفون ایک مشہور صوفی بزرگ تھے ۔ ان کا مزار سندھ کے علاقے سیہون شریف میں ہے ۔ وہ ایک مشہور صوفی بزرگ، شاعر، فلسفی اور قلندر تھے ۔ ان کا تعلق صوفی سلسلۂ سہروردیہ سے تھا۔ ان کا زمانہ اولیائے کرام کا زمانہ مشہور ہے ۔ مشہور بزرگ شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی، شیخ فرید الدین گنج شکر، شمس تبریزی، جلال الدین رومی اور سید جلال الدین سرخ بخاری ان کے قریباً ہم عصر تھے ۔آپ کی ولادت 538 ہجری بمطابق1143 عیسوی آذر بائیجان کے علاقے مروند میں ہوئی۔۔۔
آپ کے چہرہ انور پر لال رنگ کے قیمتی پتھر “لعل” کی مانند سرخ کرنیں پھوٹتی تھی اس وجہ سے آپ کا لقب لعل ہوا۔شہبازکا ان کے والد کو پیدائش سے پہلے بطور خوشخبری کے عطا ہوا اس وجہ سے “شہباز لقب ہوا اور اس سے مراد ولایت کا اعلیٰ مقام ہے ۔
آپ مروند موجودہ افغانستان کے ایک درویش سید ابراہیم کبیر الدین کے بیٹے تھے ۔ ان کے اجداد نے عراق سے مشہد المقدس (ایران) ہجرت کی جہاں کی تعلیم مشہور تھی۔ بعد ازاں مروند کو ہجرت کی۔ آپ کو اس دور میں غزنوی اور غوری سلطنتوں کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور آپ نے اسلامی دنیا کے لا تعداد سفر کیے جس کی وجہ سے آپ نے فارسی، عربی، ترکی، سندھی اور سنسکرت میں مہارت حاصل کر لی۔ آپ روحانیت کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے اور مسلمانوں کے علاوہ اہلِ ہنود میں بھی بڑی عزت تھی۔ آپ سرخ لباس پہنتے تھے جس کی وجہ سے انہیں لال کہا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ انہیں جھولے لال بھی کہا جاتا تھا۔
حضرت لعل شہباز قلندرؒ نے تقریباً 103 برس (بعض تذکروں کے مطابق 112 برس )کی عمر پائی ، آسمانِ ولایت کا یہ شہباز اور سیہون اور سندھ کے گردونواح کے تاریک علاقوں کو نورِ اسلام سے منور کرنے والا یہ آفتاب 18شعبان المعظم673ھ بمطابق1275ء میں غروب ہوگیا لیکن لوگوں کے دلوں میں تاقیامت اس آفتاب کی روشنی باقیرہے گی۔?آپؒ کا مزار سیہون شریف میں ہے جہاں ہر سال18شعبان المعظم کو عرس منایا جاتا ہے
سر زمینِ سندھ کی بھی یہ بڑی خوش نصیبی ہے کہ عالمِ اسلام کے مختلف علاقوں سے اللہ تعالیٰ جل شانہ کے مقرب اور برگزیدہ بندے یہاں تشریف لائے اور رشدوہدایت کے دریا جاری کیے ۔ ان بزرگانِ دین نے اپنے علم وعمل کی روشنی سے صرف سرزمین سندھ کوہی نہیں بلکہ گردونواح کو بھی منور کیا۔
قلندر شہباز کا روضہ مبارک سلطان فیروز شاہ تغلق کے زمانے میں تعمیر ہوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ایران کے سابق شہنشاہ رضا شاہ پہلوی نے مزار پر حاضری دی اور سونے کے نقش و نگار سے مزار کو آراستہ کروایا۔حضرت شہباز قلندر کے عرس منایا پورے پاکستان سے لوگ اس موقعے پر سیہون شریف پہنچ جاتے ہیں۔ زائرین میں ہندو عقیدت مند بھی شامل ہوتے ہیں۔ زمین کا رہن عارضی و بے ثبات عمل ہے جب کہ مٹی کی سمجھ جاوداں فکری و روحانی ورثے کے قریب تر کر دیتی ہے ۔ انسانیت و محبت کا پیامبر مروند سے ہجرت کرنے والا یہ صوفی فقیر آج دنیا بھر میں سندھ کی پہچان بن چکا ہے ۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Free WordPress Theme