تحریر۔۔۔ شاہد شکیل
یہ کسی فلم یا ایجنٹ کا نام نہیں بلکہ دنیا بھر میں کئی انسان اس خاموش قاتل کے شکار ہیں اور یہ قاتل انسان کے وجود میں آنے کے بعد اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے انحصار اس بات پر بھی کرتا ہے کہ انسان کس خطے یا ماحول میں زندگی بسر کر رہا ہے روزمرہ کی مصروفیات کیا ہیں ،کیا معقول اور صحت مند غذاؤں کا استعمال کیا جارہا ہے ،مکمل نیند لیتا ہے،اور کس شعبے سے تعلق رکھتا ہے ۔دنیا میں پھیلی بیماریاں قدیم ہونے کے ساتھ آج کل سائنس کی طرح ترقی بھی کر رہی ہیں سائنس اور ماہرین جتنا ان بیماریوں کی تہہ یا جڑوں میں جا کر ان کا مطالعہ اور مقابلہ کرتے ہوئے علاج کے طریقے دریافت کررہے ہیں اتنی ہی تیزی سے کئی بیماریاں انسانوں کی اپنی غیر ذمہ داری اور لاپرواہی سے جنم لے رہی ہیں اور روز بروز کئی نئی بیماریوں کا شکار ہو کر انسان موت کے منہ میں جا رہے ہیں ،کسی نے زیادہ کھا لیا تو بیمار ہو گیا کم کھایا تو بیمار،زیادہ خواب و خرگوش کے مزے لیتا رہا تو بیمار نیند پوری نہیں ہو ئی تو بیمار یہ کہنا مناسب ہو گا کہ انسان کچھ کرے یا نہ کرے بیمار ہو ہی جاتا ہے۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ البرٹ آئین سٹائین معمولی لیکن خطرناک حد تک پیٹ کی موٹی رگ کے پھیل اور سوج جانے سے موت کا شکار ہوا تھا۔کئی بیماریوں کی اردو میں ٹرانسلیشن کرنا ناممکن ہونے کے ساتھ اردو میں لکھنا نہایت دشوار ہوتا ہے اور اگر حرف بہ حرف درست طریقے سے یعنی ہجے کرکے نہ لکھا جائے تو مطالعہ کرنے میں دقت پیش آتی ہے تاہم ہمیشہ سے میری کوشش رہی ہے کہ انگریزی کے حروف کی درست اور صحیع الفاظ میں بامعنی لکھنے کے ساتھ ساتھ مختصر تشریح بھی کروں اور کسی حد تک کامیاب بھی رہا ہوں اس کالم میں بھی کچھ ایسے پیچیدہ طبی الفاظ شامل ہیں جنہیں اردو رسم الخط میں تحریر کرنے میں کافی محنت کی ہے تاکہ دوران مطالعہ آسانی رہے۔حالیہ طبی رپورٹ کے مطابق پیٹ کے اندر پلنے والی قدیم بیماری کا واضح طور سے مطالعہ کیا گیا جس کے نتائج منفی ظاہر ہوئے ہیں ،جرمن ماہرین کا کہنا ہے صرف جرمنی میں پینسٹھ برس سے زائد کے افراد جن کی تعداد پانچ لاکھ ہے اس بیماری میں مبتلا ہیں،پیٹ کی اس بیماری کو کسی بھی زبان میں ادا کر نا نہایت مشکل ہے جبکہ مکمل جانکاری حاصل کرنا اور زیادہ مشکل۔ایبڈو مینل اینیو رسم جسے آؤرٹک اینیو رسم بھی کہا جاتا ہے ایک مہلک اور جان لیوا بیماری ہے۔زیادہ تر افراد اسکی علامات اور اثرات سے واقف نہیں کیونکہ یہ خاموشی سے جسم اور خاص طور پر پیٹ میں نہایت خاموشی سے پروان چڑھتی ہے اور اسی لئے اسے خاموش قاتل یعنی سائلنٹ کلر کہا جاتا ہے۔ جرمن ماہر ڈاکٹر لوزِل کا کہنا ہے جرمنی میں پانچ لاکھ افراد اس بیماری کے ابتدائی علاج کے دور سے گزر رہے ہیں جبکہ ایک لاکھ مبتلا ہونے کے بعد زیر علاج ہیں نتائج آنے میں وقت درکار ہوگا ۔طبی رپورٹ کے مطابق ان افراد کے پیٹ کی خاص رگ پانچ سینٹی میٹر تک پھولی ہوئی اور سوجن ہے جس کے سبب وہ کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہے اور ایسے مریضوں کا فوری آپریشن لازمی قرار دیا ہے تاہم کچھ مریضوں کا علاج تشخیص کے بعد شروع کیا جائے گا،الٹرا ساؤنڈ سکین سے ڈاکٹروں نے اس بیماری کا پتہ لگایا ہے لیکن جرمنی میں صحت سے منسلک ادارے سکریننگ کرنے کی ڈاکٹروں کو ادائیگی نہیں کرتے اسلئے کئی مریضوں کو خود ادائیگی کرنا ہوتی ہے جو ایک مہنگا علاج ہوتا ہے تاہم روٹین چیکنگ کے دوران اتفاق سے بذریعہ الٹرا ساؤنڈ اگر معلوم ہو جائے کہ مریض اس بیماری میں مبتلا ہے تو اسکی ادائیگی صحت کا ادارہ کرتا ہے روٹین چیکنگ میں پیٹ کا ا لٹرا ساؤنڈ یا گردے کی تکلیف
سے مراد ہے۔فیملی ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ پینسٹھ برس سے زائد افراد کو باقاعدگی سے الٹرا ساؤنڈ کروانا چاہئے اور خاص طور سے ان افراد کیلئے زیادہ اہم ہے جو موٹاپے میں مبتلا ہیں یا ذیابیطس ہونے اور بکثرت تمباکو نوشی کرتے ہیں یا کمر کے درد کی شکایت کرتے ہیں۔پیٹ کے اندرونی نظام میں اکثر معمولی انفیکشن سے بھی اس بیماری میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے کیونکہ انفیکشن کی صورت میں رگیں اکثر زیادہ پھول جاتی ہیں یا اتنی کمزور اور باریک ہوجاتی ہیں کہ پھٹ سکتی ہیں اور خون جاری ہونے کی صورت میں فوری موت بھی واقع ہو سکتی ہے ، زیادہ تر مرد اس بیماری میں مبتلا ہیں کیونکہ مردوں کی روزمرہ زندگی گزارنے کا طریقہ خواتین سے مختلف ہوتا ہے مثلاً حفظان صحت پر زیادہ توجہ نہ دینا وغیرہ۔الٹرا ساؤنڈ سے فوٹوز حاصل کرنے کے بعد دوسرا قدم کمپیوٹر ٹومو گرافی سے مطلوبہ رگ کا پتہ لگانے کے بعد آپریشن لازمی ہوتا ہے ،پیٹ چاک کرنے کے بعد زخمی رگ کے ساتھ مصنوعی عضو کلیمپس لگا دی جاتی ہے جس سے خون کی سرکولیشن جاری رہتی ہے اور پوزیشن تبدیل کر دی جاتی ہے ،سٹینٹ گرافٹ کا استعمال کرتے ہوئے اینڈو ویس کیو لرکی کومبی نیشن سے رگوں کو مضبوط کیا جاتا ہے اور مریض تین سے سات دنوں میں فٹ ہو جاتا ہے۔ڈاکٹر لوزِل کے مطالعے اور دستاویزی مواد کے پیش نظر ایک سو چوالیس افراد کے سٹینٹ گرافٹ آپریشن ہوئے اور دوہزار پندرہ میں اطالوی میگزین دی اٹالین جرنل آف ویسکولر اینڈوویس کیولر سرجری کے عنوان سے شائع ہوئے جس میں تصدیق کی گئی کہ یہ ہی سائلنٹ کلر کا کامیاب علاج ہے ۔