تحریر۔۔۔ شاہد شکیل
کہتے ہیں انسان غلطیوں کا پُتلا ہے اور وہ انسان ہی کیا جو غلطی نہ کرے لیکن اگر غلطی ہو جائے تو معافی مانگ لینا ،معذرت کرنا ،سمجھوتہ کرنا اور اپنی غلطی کو تسلیم کرنا بہترین عمل ہے اس سے بھی عظیم عمل غلطی کو معاف کرنا کہا جاتا ہے اور یہی بڑا پن بھی ہے ،دنیا بھر میں ہر رنگ و نسل کے انسان آباد ہیں ان میں کچھ ایسے بھی ہیں کہ غلطی کرتے ہیں اندر ہی اندر تسلیم بھی کرتے ہیں لیکن آنکھیں دکھاتے اور اکڑتے بھی ہیں کہ سب کچھ میں نے کیا ہے لیکن میں اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا تو معافی کس بات کی جس کے نتیجے میں اکثر معاملات کشیدگی اختیار کرتے اور جھگڑے کا باعث بنتے ہیں ،سوچا جائے تو جتنا بڑا پن کسی کی غلطی کو معاف کرنا ہے اتنا ہی بڑا پن اپنی غلطی کو تسلیم کرنا بھی ہے لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ کوئی معاملات کو گہرائی سے سوچتا نہیں اور اپنی من مانی کرتا ہے۔چند روز قبل چیف کی سیکریٹری نے چند فائلوں میں تبدیلی کرنے کے بعد انہیں آرکائیوز کرنے کی گزارش کی تین گھنٹے میں اپنا کام ختم کیا اور فائلوں کو دوبارہ الماری میں بند کر دیا ،دوسرے دن کہنے لگی کہ آپ نے فائلوں پر درج نہیں کیا کہ کس نام اور سال کی ہیں تو میں نے جواب دیا کہ آپ نے جیسا کہا تھا ویسا ہی کیا ہے تو چند لمحے سوچنے کے بعد معذرت کی اور کہا مجھے افسوس ہے غلطی میری تھی ،مجھے خوشی کے ساتھ حیرانی بھی ہوئی ،خوشی اس بات کی کہ اس نے اپنی غلطی تسلیم کی اور حیرانی اس بات کی کہ اگر وہ چاہتی تو بات کو طول دیتی ،معاملات بگڑ جاتے کشیدگی کی صورت میں بات چیف تک پہنچ جاتی لیکن معمولی بات کو طول نہیں دیا اور محض ایک لفظ یعنی غلطی یا سوری کہنے سے بات ختم ہو گئی ۔دنیا میں کوئی انسان نہ تو آل راؤنڈر ہے اور نہ پرفیکٹ لیکن کوشش ہونی چاہئے کہ غلطی سرزد نہ ہو اور اگر ہو جائے تو معافی مانگنے یا معذرت کرنے سے عزت میں اضافہ ہی ہوتا ہے عزت کم نہیں ہوتی۔میاں بیوی کے درمیان اکثر نوک جھونک ہوتی رہتی ہے اور اگر طول نہ دیا جائے یا انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے تو چند گھنٹوں بعد صلح ہو جاتی ہے کیونکہ دونوں جانتے ہیں انکا ساتھ زندگی بھر کا ہے اور کسی بھی معاملے کو بحث مباحثے سے طول دینے پر ازدواجی زندگی میں دراڑ پیدا ہو سکتی ہے اسلئے اگر دونوں اپنے تئیں غلطی تسلیم کرنے کے بعد سوری کہہ دیں تو معاملہ رفع دفع ہوجاتا ہے لیکن غلطی ،معذرت اور سوری کہنا ہی مشکل ہوتا ہے کیونکہ سب اپنے آپ کو سچا اور پرفیکٹ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی نہیں کہتے کہ غلطی میری ہے اگرچہ غلطی اور معافی ایک عام لیکن نہایت مشکل الفاظ ہیں جنہیں ادا کرنے سے تقریباً ہر انسان کتراتا ہے،اس کے برعکس جو انسان معذرت کرتا یا اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے معافی مانگتا ہے وہ اپنی ایک بہت بڑی خرابی یا نقص کو دور کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تاکہ معاملات صاف و شفاف ہو جائیں ۔ انسانی نفسیات پر تحقیق کرنے والی جرمن پروفیسر ماریا سوہر کا کہنا ہے اکثر لوگ معافی مانگنے کو اچھا نہیں سمجھتے ان کے دل و دماغ میں رچ بس چکا ہوتا ہے کہ معذرت کرنا یا معافی مانگنا کوئی اچھا عمل نہیں اس سے ان کی پر سنالٹی ،معیار ، اوقات کو ٹھیس پہنچے گی اور شخصیت کا گراف ڈاؤن ہو جائے گا یعنی لوگ انہیں جاہل ،بے وقوف یا کمزور سمجھیں گے ،انہیں معافی مانگنے یا عذر پیش کرنے میں دقت اس لئے پیش آتی ہے کہ کہیں انہیں نااہل قرار نہ دیا جائے ایک خوف ہوتا ہے کہ وہ اپنا مقام برقرا ر نہیں رکھ سکیں گے دوسری طرف میاں بیوی کے جھگڑے میں مرد حضرات کبھی اپنی شریک حیات سے معذرت نہیں کرتے جو اچھا عمل نہیں ۔زندگی سے تقریباً ہر انسان کو شکائتیں ہیں لیکن سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے
معافی مانگ لینے یا آئی ایم سوری کہنے سے میاں بیوی کے درمیان تعلق مزید گہرا ،اور بااعتماد ہوجاتا ہے کیونکہ مصالحت ہی ہر تنازع کا بہترین حل ہے اور غلطیوں کے بعد ہی انسان بہت کچھ سیکھتا ہے بحث کرنے سے معاملات اور رشتوں میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے ۔پروفیسر کا کہنا ہے معذرت کرنے کے بہت سے آسان طریقے ہیں معذرت ایسے کی جائے کہ دو طرفہ قابل قبول ہو،لیکن بنیادی معاملات پر بھی انحصار کرتا ہے کہ وہ کیسے ہیں معمولی نوعیت کے ہیں یا گھمبیر،اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ آپ سے غلطی سرزد ہوئی دوسرے انسان کو چوٹ پہنچی اور معافی لازمی ہے،وضاحت کی جائے کہ غلطی کب اور کہاں ہوئی اور غلطی کا احساس ہونے کے بعد تسلیم کیا جائے ،معافی مانگنا جرم نہیں۔امریکی ماہرین کا کہنا ہے اپنے آپ کو قصور وار کہلانے کی بجائے غلطی تسلیم کرنا ہی بڑا پن ہے اپنے رویئے جس میں ندامت کا عنصر ہو اور اتنا کہنا بھی کافی ہے کہ آپ نے میری بات کو غلط سمجھا میری مراد یا مطلب یہ نہیں تھا اگر آپ کو ٹھیس پہنچی تو معذرت خواہ ہوں،کیونکہ وضاحت کرنے سے اکثر معاملات سلجھ جاتے ہیں اور کسی قسم کی رنجش یا کشیدگی کا بہت کم امکان ہوتا ہے ۔بحث مباحثے اور شکوک شبہات سے گریز کیا جائے صاف گوئی سے مختصر الفاظ استعمال کئے جائیں اور مناسب طریقے سے معاملات حل کئے جائیں۔ بچوں کو مجبور نہ کیا جائے کہ کسی معمولی غلطی کے سبب وہ آئی ایم سوری کہیں معصوم ذہنوں پر قطعاً دباؤ نہ ڈالا جائے ،والدین بچوں کے آئیڈیل ہوتے ہیں انہیں پیار محبت ، اخلاق ،خلوص اور اعتماد میں لینے کے بعد ہر معاملے میں گہری توجہ سے ترغیب اور ترکیب کے عوامل سے روشناس کرایا جائے تاکہ وہ دباؤ میں آئے بغیر اپنے معاملات خوش اسلوبی اور پر اعتماد طریقے سے حل کریں اور آئی ایم سوری کہنے کی نوبت ہی نہ آئے۔