تحریر۔۔۔ حفظہ ریاض
خو د کشی کے معنی خود کو ہلاک کرنا ہے یعنی اپنے آپ کو جان بوجھ کر کسی مشکل سے تنگ آ کر موت کے حوالے کرنا حالانکہ ہمائے مذہب اسلام میں خود کشی گناہ کبیرہ ، حرام اور جہنم میں لے جانے والا عمل ہے ۔اگر دیکھا جائے تو خود کشی کی سب سے بڑی وجہ ہم لوگوں کی اسلام اور اسلامی تعلیمات سے دوری ہے ۔ آجکل ہم میں صبرو تحمل کی کمی ہے ہماری خواہشات کا بے بہا ہونا ہے اور وسائل کا کم ہونا ہے جس کی وجہ سے لوگ زیادہ ترخود کشی کرتے ہیں ۔ اس میں نوجوان نسل میں کیونکہ زیادہ صبروتحمل نہیں ہوتا اور وہ ہر مسئلے پر جذباتی ہوجاتے ہیں اس میں زیادہ تر گھریلو جھگڑے ، بیماریوں اور مصبتوں سے تنگ آنا ، کاروباری پریشانیاں پسند کی شادی نہ ہونا ، اکثر امتحان میں ناکامیابی کی وجہ سے بھی نوجوان نسل مایوس ہو کر خود کشی کر لیتے ہیں ۔ حالانکہ انسان اگ صبر سے کا م لے اور اللہ کی رحمت کا طلب گار ہو تو تما م مشکلات دور ہو جاتی ہے لیکن آجکل کے دور میں ایک افراتفری کا عالم ہے اور صرف اپنے مفادات کو دیکھا جاتا ہے اس سے دوسروں کی زندگی میں کیا اثرات مرتب ہونگے ان کو ان سب سے کوئی سروکار نہیں اس تما م صورتحال کی وجہ سے ہماری قوم کی نوجوان نسل مایوسی کا شکار ہو جاتی ہے ایک نوجوان اپنی آنکھوں مین بہت سے خواب سجائے اعلی تعلیم حاصل کرتا ہے کہ ایک وقت آئے گا اس کا بھی نام ہو گا اور وہ بھی بہت برے عہدے پر فائز ہو گأ اور اپنے والدین کو ان تما م پریشانیوں سے نجات دے گا جو آجکل وہ برداشت کر رہے ہین لیکن تعلیم مکمل ہونے کے بعد جب وہ نوکر ی کے لیے دربدر دھکے کھاتے ہیں ان کو نوکر ی نہیں ملتی سوائے تذلیل کہ ان سب صورتحال سے بعض اوقات نوجوان نسل دل برداشتہ ہو کر موت کو گلے لگا لیتے ہیں یہ ایک اہم نقطہ ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں خود کشی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس میں بری تعدا د نوجوانوں کی ہوتی ہے خود کشی کی دوسر ی بری وجہ آجکل کے دور میں گھریلو زندگی ہے کہ ایک بچے کو وہ سب ضروریات میسر نہیں ہوتی اور نہ ویسی توجہ اور تربیت ملتی ہے جیسے والدین پہلے بچوں کو دیتے تھے گھرک ے ماحول مین عجیب سی بے سکونی کا عالم ہوتا ہے اس تما م ترمشکل حالات سے نکلنے کے لیے وہ اپنی زندگی کو مطمئن کرنے کے لیے غلط راستہ اختیا ر کر لیتے ہیں اس میں بغض اوقات وہ ایسی حرکیتں کر جاتے ہیں جو وقتی تو سکون کا باعث ہوتی ہیں لیکن بعد میں ان کے لیے مشکلات پیدا کر دیتی ہیں پھر اس تما م صورتحال سے نجات حاصل کرنے کیلئے وہ موت کو گلے لگا لیتے ہیں آجکل بچوں میں بھی خودکشی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے ان کو ہر وقت ایک مقابلے فضا میں ڈال دیا جاتا ہے اس میں والدین کا سب سے بڑا ہاتھ ہوتا ہے اگر وہ تعلیم حاصل کر رہا ہے تو اس پر والدین ایک ایسا رعب قائم کر دیتے ہیں کہ وہ صرف اول پوزیشن ہی لے اور اگر وہ پڑھائی مین کمزور ہے تو اسے مارنا ، اس کو سزا کے طور پر باقی تفریحی سہولتوں یہاں تک کے اس کو کھانے پینے پر بھی پابندی لگا دیتے ہیں جس کی وجہ سے ایک بچہ موت کو زیادہآسان سمجھتا ہے اور اپنی ان تمام تکلیفوں سے نجات کا اس کو صرف یہی حل نظر آتا ہے اور وہ والدین اس کے بعد ان تمام حرکتوں پر شرمندہ ہوتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین اپنے بچوں کو ایک اچھا انسان بنانے کی کوشش کرین ناکہ ان ان اکی تلوار لٹکا کر رکھیں کہ یہ کرو وہ کرو اس کی مناسب تربیت کریں دوسرا آج کے دور میں جہاں لوگ سوشل میڈیا کو زیادہ استعمال کر رہے ہیں ان پر بھی ایسے واقعات کو دیکھا یا جاتا ہے کوشش کی جائے کہ ٹی وی کے پروگراموں کو اس مسئلے کو زیادہ اجاگر کیا جائے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔تاکہ ہمارے آنے والی نسل تباہی کا شکار نہ ہوں اور ان کو اپنے اردگر د رشتوں کی اہمیت سے متعلق مختلف معلومات دی جائیں تاکہ کسی پریشانی کی صورت میں وہ اپنے پیاروں سے اس مسئلے کو آسانی سے بیان کر سکے اور اس متم کا قدم اٹھانے سے پہلے ان کو اپنے پیاروں کو ضرور ذہین میں رکھے کہ ہمارے بعد ان کا کیا ہوگا ۔
اب جان سے گزرنے ہے اک مرحلہ باقی رشتوں کی اذیت کا سفر کاٹ چکا ہوں ۔