تحریر عقیل خان
پاکستانی قوم مضوط اور توانا قوم ہیں۔ عرصہ دراز سے یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہی ہے۔ اس جنگ میں جہاں ہم نے اپنوں کی جانیں قربان کیں وہاں پرہی ہم مالی نقصان بھی اٹھایا مگر شکست کو گلے نہیں لگایا ۔ ہمار ی عوام جب کچھ کرنے کی ٹھان لیتی ہے تو پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹتی ہے۔جس کی مثالیں ساری دنیا کے سامنے ہیں۔ ایٹمی دھماکے ہوں یا سوات آپریشن۔ آپریشن ضرب عضب ہو یا آپریشن ردالفساد۔ پاکستانی عوام نے ہر حال میں صبرو تحمل اور جوانمردی کا مظاہر ہ کرکے ان کو کامیاب کرایا۔
کرکٹ کی دنیا میں پاکستان اپنا مقام آپ رکھتا ہے۔ بیٹنگ کا شعبہ ہو یا باؤلنگ کا، فیلڈنگ کا شعبہ ہو یا ایمپائرنگ کا ۔ جارحانہ موڈ کی بات ہو یا دفاعی انداز ، ہر شعبے میں پاکستان کے پلئیرز نے اپنا نام کمایا ہوا ہے۔ ورلڈ کپ ون ڈے ہو ٹی ٹونٹی پاکستان نے اپنا نام ان میں بھی سنہری حروف میں لکھوایا ہوا ہے۔
کھیل کو اگر کھیل ہی رکھا جاتا تو شاید یہ اتنا بدنام نام ہوتا مگر جب اس میں سیاست شامل ہوجائے تو پھر مہرے بدلتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے کھیل کے میدان انٹرنیشنل میچز کے بہت عرصے سے بند ہیں۔ کوئی بھی غیرملکی ٹیم پاکستان میں کھیلنے سے ڈرتی ہے۔ اس کی وجہ لاہور میں سری لنکن ٹیم پر ہونے والا حملہ ہے۔ حملہ کیا ہوا اس کے بعد سے پاکستانی میدانوں میں ویرانی سے چھاگئی ۔ پاکستان کے میدان شائد اتنا عرصہ ویران نہ رہتے مگر پاکستان مخالف ملکوں نے پاکستان کے خلاف اتحاد بنا لیا جس کی وجہ سے آئی سی سی میں وہ لوگ مسلط ہوگئے جو پاکستان کے کھیل کے میدانوں کو برباد کرنا چاہتے تھے۔ ہر بار آئی سی سی کا وفد پاکستان آتا اور سیکورٹی رسک قرار دیکر پاکستان میں میچ کرانے سے انکار کردیتا۔اسی لیے پاکستان میں ہونے والے تمام میچز شارجہ اور دبئی تک محدود ہوگئے۔ یہی نہیں پاکستان سپر لیگ جو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار منعقد ہوئی وہ بھی شارجہ اور دبئی میں کھیلی گئی۔
اب جب دوسری بار پاکستان سپرلیگ شروع ہوئی تو وہ بھی شارجہ اور دبئی کے میدانوں کھیلی گئی مگر اس کی خاص بات کہ اس سپرلیگ کا فائنل لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں کرانے کا اعلان کیا گیا۔ اس اعلان کے بعد بہت سی آوازیں حمایت اور مخالفت میں اٹھیں مگر یہ آوازیں وقت کے ساتھ ساتھ کبھی تیز اور کبھی کم ہوتی رہی اور پاکستان سپرلیگ رواں دواں رہی۔ آخر کار وہ وقت آگیا جس کا سب کو شدت سے انتظار تھا اور وہ وقت تھا فائنل کا جس میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور پشاور زلمی پہنچی۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز میں شامل تمام بیرونی ممالک کے کھلاڑیوں نے لاہور جانے سے صاف انکار ہی نہیں کیا بلکہ سیمی فائنل جیتنے کے بعد اپنے اپنے ملک کا ٹکٹ بھی کٹوا لیا جبکہ دوسری طرف پشاورزلمی میں شامل تمام کھلاڑیوں (ملکی او رغیر ملکی)نے لاہور کے قذافی سٹیڈیم کو آباد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ادھر کھیلنے کا دبنگ اعلان کردیا۔
پاکستان سپرلیگ کا فائنل لاہور میں جیسے ہی ہونے کا اعلان ہوا اس کے مخالف لوگ میدان میں نکل آئے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ پاکستان مخالف تو مخالفت کررہے ہیں اب اپنے بھی ان کی زبان بولنے لگے۔ سب سے پہلے ہمارے خانصاحب نے کہا کہ پاکستان میں فائنل کرانا احمقانہ فیصلہ ہے۔ اس کے بعد ہمارے وہ کرکٹر جن کو اپنے دور میں عوام نے سرماتھے پر بٹھایا وہ بھی فائنل لاہور میں کرانے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان سابقہ کرکٹرز اور خانصاحب کے بیانات کے بعد بیرونی ممالک کے کھلاڑیوں نے پاکستان میں کھیلنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ جس ملک کے اپنے لوگ منع کررہے ہو وہا ں جاکر ہم اپنی زندگی کیوں خطرے میں ڈالیں۔
جیسا میں نے پہلے کہا کہ کھیل کو کھیل رکھنا چاہیے اور سیاست اسمبلیوں میں کرنی چاہیے مگر ادھر تو سوشل میڈیا پر کھل کر اس کو ’’ن‘‘ اور ’’جنون‘‘ کی جنگ بنادیا۔ کبھی سیکورٹی پر اعتراض تو کبھی مساجد پر تالے لگانے کے افواہیں۔بہت سے لوگوں نے تو برملا کہا تھا کہ اگرکہیں قذافی سٹیڈیم کے نزدیک مساجد کو تالے لگے ہیں تو ان کی تصاویر آویزان کی جائے مگر ایسا کسی بھی نہیں کیا کیونکہ یہ حقیقت نہیں بلکہ ایک پروپگنڈا تھا۔
اب فائنل لاہور میں دو ٹیموں کے درمیان میچ نہ رہا بلکہ یہ عوام اور دہشت گردکے درمیان بن گیا۔ جس میں عوام کی جیت ہوئی۔ وہ لوگ جو کہہ دہشت گردی کو ایشو بنا کر عوام کو گھر میں قید کرنا چاہتے تھے ان کو ایسا سبق ملا کہ وہ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ فائنل لاہور میں تھا مگر عوام پورے پاکستان سے ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک سے بھی آئی اور انہوں نے ثابت کیا کہ پاکستانی عوام دہشت گردوں سے ڈر کر گھر میں قید ہونے والی نہیں ۔
فائنل کے بعد سوشل میڈیا پر لوگوں نے اپنی اپنی رائے دینا شروع کردی ۔ایک حقیت جو ہمارے بھائی سیدذاکر شاہ نے تحریر کی مجھے بہت اچھی لگی ۔ بقول شاہ صاحب کے کہ چائے کے ہوٹلوں اور ڈھابوں پہ کھڑے میچ دیکھتے ان عام پاکستانیوں کے چہرے کی چمک دیکھی جو صرف اتنی سی بات سے خوش تھے کہ پاکستان کے اندر انٹرنیشنل کھلاڑیوں نے قدم رکھا ۔ زخموں سے چور چور اس خوش باس قوم کے دلوں کے اندر کوئی میل نہیں ، زلمی کی فتح پہ پنجابی بھی اتنے ہی خوش تھے جتنے وہاں کھڑے پٹھان۔ وہ اس جیت کو پاکستان کی جیت کہتے تھے۔ ہم ایک زندہ دل قوم ہیں۔ اس قوم کو چند خوشیوں کی ضرورت ہے اس لیے ایسے ایونٹس لازمی ہونے چاہیں جس میں آخر کار صرف پاکستان جیتے ۔
جب میں نے یہ الفاظ پڑھے تو میرے دل کو بہت بھائے۔ اس حقیت سے میں نہیں بلکہ ہر محب وطن اتفاق کرتا ہے۔ فائنل ہوگیا مگر مجھے یہ سوچنے پر مجبور کرگیا کہ کیا ہم دوسروں کے لیے مثال بننے کی بجائے آپس کے اختلافات دکھا کر ملک کی بدنامی کب تک کراتے رہیں گے؟ میں شیخ رشید اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا بھی سراہوں گا جنہوں نے عوام میں بیٹھ کر ثابت کیا کہ ہم سب ایک ہیں اور میچ کسی ایک ٹیم کی جیت نہیں بلکہ پاکستان کی جیت اور دشمنوں کی ہار ہے۔