تحر یر۔انیلا انجم
آزادی سے آج تک پاکستان میں حکمرانی کے تخت پر براجمان ایسا ٹولہ رہا ہے جس نے ا پنے ذاتی مقاصد کی خاطر نظریاتی اساس کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں ، قائد اعظم اور لیاقت علی خا ن کے بعد قرارداد مقاصد پر عمل درآمد کروانے کی کوشش ہی نہیں ہو ئی ۔
آ ئین پاکستان حکومت پر ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ پاکستانی معا شرے میں اسلامی اقدار کا تحفظ یقینی بنایا جائے ۔دنیا میں اہم انقلاب رونما ہوئے ہیں جنہوں نے انسانی اور معاشرتی اقدار کو بدل کر رکھ دیا۔ان میں روشن خیالی،اور جمہوری روایات کا آغاز کرنے والا انقلاب فرانس ہے جہاں پوپ اور بادشاہ کی حکمرانی کو ہمیشہ کے لیے ختم ہونا پڑا لیکن ہم اس ہی انقلاب کی سوچ کوپروان چڑھا رہے ہیں جو آج فرانس میں ہے۔
،مذہب کا معاشرے سے نکل جانے سے معاشرہ انفرادیت کا شکار ہو گیا۔ اس کے ساتھ ماڈرائزیشن یعنی جدت پسندی کا آغاز ہوا،انسان نے انفرادی فائدے کے لیے پیور سائنٹیفک نالج کو سوشل سائنس پر لاگو کیا،یہ علم شوسل سائنس میں کتنا کارگرثابت ہوا،اس کا ا ندازہ سرد جنگ میں امریکہ کی جیت اور حالیہ امریکی الیکشن میں جیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔سرد جنگ میں شوسل سائنس میں سائنٹیفک نالج کی نا کامی کے بعد نئے دور کا آغاز ہوا جسے ہم یعنی جدت پسندی کے بعد کا دور کہتے ہیں ، اب جدت پسندی کے نظریات ( جمہوریت ، مذہب ، سیکولر ،لبرلز،حاکمیت ریاست وغیرہ) کی دوبار ہ سے تنقید ی تعریف ہو رہی ہے۔
اس ساری تمہید کا مقصد روشن خیال پسند گروہ کی جانب سے داغے گئے سوال کا جواب دینا ہے کہ ؟مولوی صا حب دنیا کے ساتھ چلیں ۔ اس کا جواب بھی یہ ہی ہے کہ دنیا کے ساتھ چلے یورپ کی غلطی سے سیکھے اور جدت پسندی کے بعد کی دنیا کے ساتھ چلئے۔امریکی صدر کی حالیہ تقریر بھی اس ہی طرف اشارہ کرتی ہے۔امریکی صدرٹرمپ کا یہ کہنا کہ وہ اپنا طرز زندگی دوسروں پر عائد نہیں کر یں گے ۔یادرہے کے سابق صدر بش کا 9/11کے بعد عوام سے تقریر کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 9/11کرنے والوں نے ہمارے طرز زندگی پر حملہ کیا ہے۔مگر جلد ہی دنیا کو احساس ہو گیا کہ ہر علاقہ ، تہذیب ، روایت اور تاریخ مختلف ہیں۔ہر علاقہ کی ترقی ان عوامل پر ہوتی ہے۔ ہمیں بھی اپنی تاریخ اور تہذ یب سے سیکھتے ہوئے قراردادمقاصد اور بنیادی انسانی حقوق جو کہ آ ئین پاکستان میں درج ہیں کی بنیاد پر قومی یکجہتی اور ترقی کو پروان چڑھانا چاہیے۔جو کہ ہمادی دنیا میں مخصوص اور جداگانہ پہچان کی وجہ ہے۔اور حرف آخر یہ کہ
ہمیں اپنی تعریف اپنے مطابق کرنی ہے۔ ہمیں امپورٹیڈ لنڈا روشن خیالی سے اجتناب کرنا چاہیے۔کیوں کہ زندہ قومیں اپنے راستے خود چنتی ہیں ۔ُ ُ
جدت پسندی اور عالمی حالات دونوں پاکستان کے حق میں ہیں۔موجودہ امریکی حکومت کو زیادہ ضرورت امریکا کی اندرونی ترقی ہے۔امریکہ بہت جلد بہت سے ممالک کی امداد بند کر دے گااور امداد بند کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عالمی حالات سے دوری اختیار کرنا، اس دوری کی صورت میں بہت سے ممالک اپنے اندر کی خلا اپنے نظریات سے پورا کریں گے۔مسلم دنیا میں صرف پاکستان ہی ایساملک ہے جو یہ کر سکتا ہے کیوں کے پاکستان کے پاس ایک اچھی فوج،نظریاتی اساس اور غیر عربی و غیر فارسی ہو نے کی وجہ سے ممتاز مقام بھی حاصل ہے۔ایران اپنا مقام خود ہی گراچکا ہے ، ایران امریکہ جوہری ڈیل کے بعد ایران اور مسلم امہ کے درمیان فیصلہ بڑھ چکا ہے۔دوسری جانب سعودی بادشاہت اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے گرتی ہوئی پٹرول کی قیمت کسی قیامت سے کم نہیں ہے۔اس حکمران خاندان میں سکت رہی ہے اور نہ ہمت۔ ترکی اپنے اندر ،خود سے لڑرہا ہے۔ایک طرف ترقی پسند اشتعال کا سبب ہیں اور دوسری طرف د ہشت گردی سے لڑنا بھی ہے۔
اب بچا تو پاکستان ہی ہے جو آگے بڑھے اور دو قومی نظریہ کی مدد سے مسلم دنیا کی کمان سمبھالے،مگر مشتری ہوشیارباش، یہ سب اس وقت ممکن ہے جب ہم لنڈا روشن خیالی سے اجتناب کریں۔یہی اقبال کی خودی ہے یہ ہی اس ملک کا مستقبل ہے۔
خودی کو کر بلنداتنا کہ خدا بندہ سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔