لاہور(یو این پی) 22 اپریل 2011ء کے روز پاکستان کا ایک نامور سپوت اس جہانِ فانی سے رخصت ہوا جسے دنیا معین اختر کے نام سے یاد کرتی ہے۔ معین اختر کا شمار پاکستان کے منجھے ہوئے اداکاروں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے سٹیج، ٹیلی وژن اور تھیٹر جیسے تینوں جیسے تینوں میڈیمز میں اپنی ایکٹنگ کے جوہر دکھائے۔ معین اختر نے جو بھی کردار نبھایا اسے امر کر دیا۔ انھیں ڈائیلاگ ڈیلیوری میں کمال کا عبور حاصل تھا۔ انھیں اگر پاکستان کا فخر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ آپ نے ٹیلی وژن کے کئی پروگراموں میں میزبانی کے فرائض بھی سرانجام دیے۔ معين اختر خداداد صلاحيتوں کے مالک فن کار تھے۔ انھيں اردو زبان پر کمال کا عبور حاصل تھا۔ ان کی شستہ اردو کانوں میں رس گھول دیتی۔ صرف یہی نہیں معین اختر کو انگریزی، پنجابی، پشتو، سندھی اور گجراتی سمیت متعدد زبانوں پر وبور حاصل تھا۔پاکستان کا یہ سپر سٹار اداکار 24 دسمبر 1950ء کو پیدا ہوا۔ معین اختر نے صرف 13 سال کی عمر میں چائلڈ ایکٹر کی حیثیت سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ انہوں نے سٹیج سے اپنی اداکاری کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ٹیلی وژن پر بھی چھا گئے۔ انہوں نے مزاحیہ، ٹریجڈی اور پیروڈی جیسی مشکل کردار نگاری میں ایسے رنگ بھرے کہ ٹیلی وژن ناظرین آج بھی ان کے کرداروں کو یاد کرتے ہیں۔ معین اختر کے مشہور ڈراموں اور پروگراموں میں روزی، عید ٹرین، سٹوڈیو ڈھائی، سٹوڈیو پونے تین، سٹوڈیو چار بیس، شو ٹائم، شوشا، یس سر نو سر، آپ کا انور مقصود، معین اختر شو، سچ مچ، لوز ٹاک اور ہاف پلیٹ قابل ذکر ہیں۔پاکستان کا یہ لیجنڈ اداکار ایک عرصہ تک عارضہ قلب میں مبتلا رہا لیکن مرتے دم تک افسردہ چہروں پر مسکراہٹ بکھیرتا رہا۔ ان کا انتقال 22 اپریل 2011ء میں کراچی کے ایک ہسپتال میں ہوا۔ مرحوم کی عمر 61 برس تھی۔ معین اختر کو ان کی خدمات کے صلے میں پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔