اسلام آباد (یو این پی) سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کے معاملے پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تشکیل کے لیے اسٹیٹ بینک اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی جانب سے بھجوائے گئے ناموں پر اعتراض اٹھا کر انھیں مسترد کردیا۔ جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں پاناما کیس فیصلے کی روشنی میں جے آئی ٹی کی تشکیل کے حوالے سے بنائے گئے سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن بهی خصوصی بنچ کا حصہ ہیں۔ سماعت کے دوران بینچ نے اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی کی جانب سے بھجوائے گئے ناموں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور گورنر اسٹیٹ بینک اور چیئرمین ایس ای سی پی کو عدالت میں طلب کرلیا۔ جسٹس اعجاز افضل نے اپنے ریمارکس میں کہا، ‘ہم چاہتے ہیں کہ جے آئی ٹی میں ایسے لوگ شامل کیے جائیں جو ایمان دار اور اپنے کام میں مہارت رکھتے ہوں’۔ ان کا مزید کہنا تھا، ‘ہم چاہتے ہیں کہ ایسے لوگ جے آئی ٹی میں شامل ہوں جن کا ماضی بے داغ ہو اور وہ ہیرے کی طرح شفاف اور قابل ہوں’۔ عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ بھیجے گئے افسران کے نام غیر جانبدار نہیں، ساتھ ہی عدالت نے دونوں اداروں کو ہدایت کی کہ گریڈ 18 سے اوپر کے تمام افسران کی لسٹ ساتھ لے کر آئیں۔ اس موقع پر جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ ‘کسی کو عدالت کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی’، ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ‘فہرستیں اس لیے طلب کی گئی ہیں تاکہ ہم خود چناؤ کریں’۔ بعد ازاں کیس کی سماعت جمعہ (5 مئی) تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔ گذشتہ روز ہی سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیا تھا۔ خصوصی بینچ پاناما کیس کے فیصلے پر عملدرآمد یعنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تشکیل اور اس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ ماہ 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دیا تھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کورٹ روم نمبر 1 میں پاناما لیکس کے معاملے پر آئینی درخواستوں کا فیصلہ سنایا جسے رواں سال 23 فروری کو محفوظ کیا گیا تھا۔ 540 صفحات پر مشتمل اس فیصلے کو جسٹس اعجاز اسلم خان نے تحریر کیا تھا۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں 7 دن کے اندر جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی۔ لارجر بینچ نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے اس فیصلے پر عملدرآمد کروانے کے لیے خصوصی بینچ بنانے کی استدعا کی تھی، تاکہ پاناما لیکس کیس میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات بند گلی میں نہ رہ جائیں۔