لاہور(یو این پی) پینسٹھ سال بعد سوشل میڈیا کے ذریعے بہن کو اپنے بھائی مل گئے، واہگہ باڈر پر ملاقات میں رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔تفصیلات کے مطابق خیبر پختونخوا کے دور افتادہ علاقے اپر دیر سے کئی سال قبل گمشدہ ہونے والی خاتون جمعرات کو مقبوضہ کشمیر سے اپنے علاقے پہنچی ہیں۔ جان سلطانہ نامی اس خاتون کا رابطہ پاکستان میں اپنے خاندان کے ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے ہوا تھا۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق جان سلطانہ نامی خاتون کے بیٹوں نے اپر دیر کے نام سے فیس بک کے ایک پیج پریہ پیغام دیا تھا کہ اُن کی والدہ کا تعلق اپر دیر کے گورکوہی عشیرہ درہ گاؤں سے ہے اور اُن کے بہن بھائی اب بھی اس گاؤں میں رہتے ہیں، اگر کوئی ان سے رابطہ قائم کرا سکے تو بہتر ہوگا۔اس صورتحال کا علم دیر سے تعلق رکھنے والے ادویات کے ایک تاجر اکرام اللہ کو ہوا تو انہوں نے اپنے دوستوں کے ذریعے اس خاندان کو تلاش کیا اور پھر ان کا رابطہ ویڈیو چیٹ کے ذریعے کرایا گیا۔ جب اس بہن کی سوشل میڈیا پر اپنے بھائیوں سے ویڈیو کے ذریعے بات ہوئی تو مقبوضہ کشمیر میں بیٹھی بہن فرط جذبات سے بے ہوش ہو گئی تھیں۔جان سلطانہ چھ سے سات سال کی عمر میں لاپتہ ہو گئی تھیں اور وہ گھر میں سب سے بڑی بیٹی تھیں۔ اُن کے بھائیوں کی عمریں اس وقت دو سے چار سال تک تھیں، خاتون کے بھائی انعام الدین نے بدھ کو ان کا واہگہ بارڈر پر استقبال کیا جہاں بہن بھائی گلے ملے اور خوب روئے۔انعام الدین نے بتایا کہ وہ بہت چھوٹے تھے جب ان کی بہن لاپتہ ہو گئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی بہن کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں اور بہت سے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بہن کی گمشدگی کے تیس سال بعد تک وہ انہیں تلاش کرتے رہے لیکن اُن کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ پھر وہ تھک ہار کر بیٹھ گئے تھے۔رابطہ کرانے والے اکرام اللہ کا کہنا ہے کہ جاں سلطانہ کو پشتو بہت کم آتی ہے اور اردو وہ بول نہیں سکتیں۔ وہ صرف کشمیری زبان بولتی ہیں اس لیے ان سے کوئی بات نہیں ہو سکی۔ جاں سلطانہ کے شوہر 30 سال پہلے وفات پا گئے تھے۔