تحریر۔۔۔ صوفیہ کنول
علمی تعلیم کا ادبی شعور سے رشتہ ایسا ہے۔جیسا سورج کا روشنی سے، چاند کا چاندنی سے۔اگر چاند چمکنا چھوڑ دے تو وہ ہمیں نظر تک نہیں آئے گا۔گویا وہ ہو یا نہ ہو ایک برابر ہے۔اگر سورج سے اس کی روشنی کو ہٹا لیا جائے تو وہ ایک سیاہ دھبہ کے سوا کچھ بھی نہیں رہے گا۔اور برعکس دنیا کو فائدہ پہنچانے کے اس کے اندھیرے اور سیاہی سے دنیا کو بہت سی مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہی حال ہماری علمی تعلیم کا ہے۔ادب کے شعور کے بغیر اکثر لوگ اپنی تعلیم کا غلط استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔انا پرستی میں انسانی حقوق کو پامال کرنا،انسانوں پر ظلم و ستم کرنا اور معاشرے میں بہت سی خرابیاں پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے گناہوں کا موجب بھی بنتے ہیں۔تعلیم کی اہمیت و افادیت سے ہم کبھی بھی انکاری نہیں ہوسکتے۔جب تک ہمارے پاس تعلیم نہیں ہوگی ہم کبھی بھی زندگی کی بازی نہیں جیت سکتے۔ مگر تعلیم کا صحیح استعمال کرنے کے لئے ہمیں شعور کی بھی اشد ضرورت ہے۔اور وہ شعور ادبی مجالس سے حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے پاکستان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہمارے پاکستان کی آئندہ نسل یعنی بچے ہیں۔اور ہمیں اس قیمتی سرمائے کی صحیح انداز میں تربیت اور حفاظت کرنی چاہئے۔
ہم اپنے بچوں کو بڑے سے بڑے کالجوں اور یونیورسیٹیوں میں اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لئے بڑی سے بڑی رقم خرچ کرنے سے ذرا گریز نہیں کرتے۔تاکہ ہمارے بچے پڑھ لکھ کر اچھے آدمی بنے وہ اپنے ساتھ ساتھ ہمارا نام بھی روشن کرے۔مگر ہمارے بچے چاہے جتنا مرضی پڑھ لکھ کر بڑے سے بڑے آفسر بن جائیں جب تک ان میں ادب،اخلاق اور انسانیت نہ ہوگی وہ جاہل ہی رہے گے۔ اور کبھی بھی باشعور نہیں ہوسکتے۔ جیسا کہ ابلیس کو اللہ نے بے شمار تعلیم اور عبادات سے نواز رکھا تھا۔جس پر اُسے غرور آگیا۔اور بے ادب ہوگیا۔اپنی تعلیم و عبادات کے غرور میں وہ بھول گیا تھا کہ وہ کس عظیم الشان ہستی کے حکم کا انکار کر رہا ہے۔علامہ اقبال صاحب نے اپنے اس شعر میں کیا خوب اس سب کا نقشہ کھینچا ہے۔
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
افلاک بھی،اولاد بھی،جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
اسی لئے علمی تعلیم کے ساتھ ساتھ ادبی شعور بھی بہت اہمیت کا حامِل ہے۔ مختلف تعلیمی اداروں میں ماہانہ یا سالانہ ہونے والے ادبی مجالس سے بہت سے تعلیم حاصل کرنے والے باوقار بچوں کو اپنی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کا موقع فراہم ہونے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ نیا سیکھنے کو بھی ملتا ہے۔بہت سی نئی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ آپس میں حسن و اخلاق اور نیکی کا جذبہ ابھرتا ہے۔اللہ اور اس کے رسول کے عشق کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ اسی لئے تعلیمی اداروں میں بچوں کو علمی تعلیم کے ساتھ ساتھ ادبی شعور کی بھی اشد ضرورت ہے۔تاکہ وہ بڑے ہو کر اپنی تعلیم کا صحیح استعمال کر سکے۔دنیا کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے احکامات کو بھی پہچان سکے۔گناہوں سے بچے اور اپنے فرائض کو خوش اسلوبی سے سر انجام دیتے ہوئے وطنِ عزیز پاکستان کو امن کا گہوارہ بنائے۔ اور مغربی رسومات کی بجائے اپنی مشرقی اور اسلامی رسومات کو فروغ دے۔ اپنے اور اپنےخاندان کے ساتھ ساتھ ارد گرد کے پورے معاشرے کو تعلیم کی ادبی اور شعوری کرنوں سے منور کرے۔اور صحیح معنوں میں پاکستان کے ساتھ ساتھ اسلام کا نام بھی روشن کرے۔اور اپنی دنیاوی زندگی کے ساتھ ساتھ ابدی دنیا میں بھی سرخرو ہو۔