تحریر۔۔۔ ملک محمد سلمان
گورنمنٹ کالج چک نمبر 09تحصیل کوٹ مومن ضلع سرگودھامیں نقل اور بے قاعدگیوں کی عوامی شکایات پر اسسٹنٹ کمشنر کوٹ مومن عفت النساء11مئی کو تقریباً ساڑھے 10بجے چیکنگ کیلئے امتحانی سنٹرپہنچی۔ دوران چیکنگ امتحانی سینٹر کے ریزیڈنٹ انسپکٹر اظہر علی شاہ نے اسسٹنٹ کمشنر کو روکا کہ آپ سنٹر چیک کرنے کا اختیار نہیں رکھتی ۔ آپ گریڈ 17 کی آفیسر ہیں جبکہ ہم لوگ گریڈ 19 اور 20 کے افسران ہیں لہذا آپ ہمیں چیک نہیں کر سکتی ہیں۔(ویسے میری ناقص رائے کے مطابق کالج لیکچرر بھی گریڈ 17کا ہی ہوتا ہے جبکہ اسسٹنٹ پروفیسر اور پروفیسر بالترتیب گریڈ اٹھارہ اور انیس کے ہوتے ہیں) ۔
اسسٹنٹ کمشنر لیکچرر اظہر شاہ کے ناروا سلوک کی شکایت کیلئے پرنسپل آفس پہنچی تو پرنسپل موجود نہ تھے ،آفس کلرک نے ٹیلی فون کے زریعے پرنسپل سے رابطہ کروایا۔
اظہر شاہ کو جیسے ہی اسسٹنٹ کمشنر کی شکایت کا پتا چلا تو سخت غصے میں آگیا اور اسسٹنٹ کمشنر کو سبق سکھانے کا سوچ لیا اور ساتھی لیکچررز اور آفس سٹاف سے ملکر’’ میڈم کا غصہ ٹھنڈا کرنے‘‘ کی چال چل دی۔
’’میڈم آپ ناراض نہ ہوں بیٹھ کر پانی پئیں ‘‘آفس کلرک نے کمال مہارت اور اسرارکے ساتھ اسسٹنٹ کمشنرکو پرنسپل کی غیر موجودگی میں ان کی چئیر پر بیٹھا دیا اور ساتھ ہی تصاویر اتارنا شروع کردیں۔ سوال یہ ہے کہ آفس سٹاف کو کیا حق حاصل ہے کہ ذاتی موبائل سے خاتون آفیسر کی تصاویر بنائے۔
یہی موقع چاہئے تھا اظہر علی شاہ نے ساتھی لیکچررز کے ہمراہ پرنسپل کے کمرے داخل ہوتے ہی اسسٹنٹ کمشنر کا گھیراؤ کر لیا اور کرخت آواز میں بدتمیزی شروع کر دی۔ اچانک افتاد ٹوٹنے پراور اظہر شاہ کے شدید عزئم دیکھ کر خاتون اے سی خوف زدہ ہوگئی اور اپنے دفاع کے لئے پولیس طلب کرنا پڑی۔
ایس ایچ او ظفر شاہ نے موقع پر پہنچ کر فریقین کو ٹھنڈا کیا اور تعلیمی ادارے کا ماحول خراب نہ ہو اس لئے تھانے جاکر معاملہ حل کرنے کو کہا۔ تھانے میں وقتی صلح کے بعد دونوں فریق چلے گئے۔
تقریباًتین بجے اظہر علی شاہ لیکچررز،پروفیسرز وکالج عملہ کے ہمراہ جلوس کی شکل میں کچہری کوٹ مومن سرگودھا روڈ پر آئے اور روڈ بلاک کر دی اور اسسٹنٹ کمشنر کی رہائش گاہ کے مین گیٹ پر آ کر گیٹ کو ٹھڈے مارے اور زور زور سے آوازیں دیتے رہے کہ باہر نکلو آج ہم تم سے نمٹ لیتے ہیں۔ مسلسل دو گھنٹے خاتون اے سی کی رہائش گاہ کا گھیر اؤ کرکے کچہری روڈ کو بلاک کیے رکھا اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی کہ کل کالج کے تمام طلبا اور اساتذہ کو اکٹھا کر کے پورے شہر کے روڈ اور موٹر وے بھی بلاک کریں گے۔
ایک طرف یہی اساتذہ ا سٹوڈنٹس کو بنیادی طلباء سیاست کا حق دینے کو تیار نہیں ۔دوسری طرف اپنے ذاتی دشمنی اور انا کی تسکین کیلئے پر تشدد کاروائیوں اور سڑکیں بلاک کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ایک خاتون پر اس قدر شرمناک الزامات لگانا اور واہیات گالیاں بک کر اساتذہ قوم کے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں۔موصوف لیکچرار تو بن گئے مگرانسانیت کے اساتھ ساتھ شائد محکمہ تعلیم کے قوانین کوبھی بھول گئے یا پھر وہ خود کو اتنے اعلیٰ گریڈ کا حامل سمجھتے ہیں کہ کسی بھی قانون کو خاطر میں نہیں لاتے۔
لیکچرار صاحب کے علم میں جانے یہ بات کیوں نہیں ہے کہ میٹرک اورانٹرمیڈیٹ امتحانات کے سپرنٹنڈنٹ گریڈ 16اور 17کے آفیسرزہی ہوتے ہیں ۔جناب اظہر شاہ آپ کے مقابلے میں کسی مڈل سکول میں گریڈ سولہ کے ایس ایس ٹی امتحانی سینٹر کے سپرنٹنڈنٹ ہوتے ہیں،آپ کی معلومات میں اضافہ کیلئے بتاتا چلوں کہ حالیہ انٹرمیڈیٹ امتحانات میں بیسوں امتحانی سینٹر ز کے سپرنٹنڈنٹ گریڈ 14کے ای ایس ٹی ہیں اور بورڈ کی طرف سے امتحانی سینٹر کی چیکنگ کیلئے مقرر کردہ موبائل انسپکٹر کی اکثریت گریڈ 17کے اساتذہ پر مشتمل ہوتی ہے جبکہ بورڈ کی طرف سے انتہائی حساس اور اہم نوعیت کی ذمہ داری ڈسٹریبیوشن انسپکٹر جو کہ تحصیل کے تمام سینٹرز میں پیپر پہنچانے اور وصول کرنے کی ذمہ داری بنھاتا ہے وہ بھی گریڈ 17کا ہی ایک استاد ہوتا ہے۔
پنجاب سول سرونٹ ایکٹ 2016کے تحت اے سی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی تحصیل کے اندر واقع کسی بھی ادارے کا دورہ کر کے اس کی کارکردگی کا جائزہ لے۔
اگر یہ سینٹر نقل میں ملوث نہیں تھا تو پھرلیکچرر اظہر شاہ کو سینٹر وزٹ کروانے میں کیا پرابلم تھا۔ سینٹر وزٹ کرنے سے روکنے کیلئے اس حد تک چلے جانے سے یہ بات کنفرم ہوتی ہے کہ دال میں کچھ کالاضرورتھا۔رہی بات اے سی کی پرنسپل کی کرسی پہ بیٹھنے کی تو وہ خود بیٹھی ہیں یا انہیں اسرار کرکے کہ بٹھایا گیا ہے وجہ جو بھی ہوخاتون آفیسرکو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مگر اس سے بھی زیادہ غیر اخلاقی اور غیر قانونی بات یہ ہے کہ اک خاتون آفیسر کا گھیراؤ صرف اس بات پہ کر لیا جائے کہ وہ آپ کو چیک کرنے آ گئی ہیں اور پرنسپل کی کرسی پہ بیٹھ گئیں ہیں۔ اسے گالیاں دی جائیں، دھمکیاں دی جائیں اور اس کے خلاف جھوٹے الزامات کا ایک طوفانِ بدتمیزی برپا کر دیا جائے۔ سوشل میڈیا پر معزز خاتون آفیسر کو’’غندی رن‘‘جیسے شرمناک القابات سے پکارا گیا،گدھی پر عفت النساء لکھ کر اسے جوتوں کے ہار پہنا کر سڑکوں پر گھمایا گیا اور اس قدر زہریلا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ایس ایچ او کو اے سی کا خاونند مشہور کر دیا گیا۔کوئی بھی مہذب معاشرہ اور قانون کسی بھی جرم میں کسی خاتون کے ساتھ اس قدر شرمناک سلوک کی اجازت نہیں دیتا۔اساتذہ جو تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں ،ان کی غیر ذمہ داری کا یہ عالم ہے کہ وہ ان گھٹیا اور شرمناک افعال سے اپنے طلبہ پر انتہائی برے اثرات مرتب کر رہے ہیں ان کے زیرسایہ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ سے دیانتداری ،فرض شناسی،اخلاقیات اور حب الوطنی کی امید کیونکر کی جاسکتی ہے۔
شنید ہے کہ اظہر شاہ پارٹ ٹائم صحافی بھی ہیں ،موصوف سے پوچھا جائے کہ وہ کس قانون کے تحت صحافت کرتے ہیں۔بدقسمتی سے صحافت میں’’ بلیک میلنگ ‘‘آوارہ سرکاری ملازمین ہی کی ایجاد ہے۔ یہ پارٹ ٹائم صحافی اپنے ادارے کی جاسوسی کرتے ہیں اور افسران کی کمزوریاں تلاش کرکے انہیں بلیک میل کرتے ہیں۔،یہ بلیک میلراپنے سرکاری اداروں پرخود ہی لنکا ڈھاتے ہیں اور افسران کی کمزوریوں کی وجہ سے اداروں میں من مانیاں کرتے ہیں۔گورنمنٹ کو چاہئے کہ سرکاری ملازمت کے ساتھ پارٹ ٹائم صحافت کرنے والے جاسوسوں کے خلاف بھرپور قانونی کاروائی کی جائے تاکہ اداروں کی پرائیویسی اور تقدس قائم رہ سکے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ خاتون اسسٹنٹ کمشنر کو فرائض کی ادائیگی سے روکنے کی کوشش اور اسے حبس بے جا میں رکھنے پر مدرس کا لبادہ اوڑھے ان قانون شکنوں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی عمل میں لائی جاتی مگراپنی عددی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اساتذہ کمیونٹی نے ایک ایماندار آفیسر کے ساتھ ہونے والے قابل افسوس واقعہ کی مذمت کرنے کی بجائے اپنی کالی بھیڑ کو ہیرو بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ آخر کار وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے قانون ہار گیا اور احتجاجی سیاست جیت گئی۔خاتون آفیسر کو ناکردہ گناہوں کی معافی مانگنا پڑی۔ پیغمبرانہ پیشہ تعلیم کو ایمانداری اور خلوص نیت سے سرانجام دینے والے معزز اساتذہ کی جوتیاں بھی سر آنکھوں پرمگرتعلیم جیسے مقدس پیشے کو لوٹ مار،نقل مافیا میں بدلنے والے اساتذہ قطعی عزت و اکرام کے حقدار نہیں بلکہ ان کے تمام قانون شکن کام قابل مواخذہ ہیں۔
بدقسمتی سے کالجز کے لیکچرراور پروفیسرزتدریسی اوقات میں غیر تدریسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے نطرآتے ہیں جبکہ انہیں طلبہ کو کالج اوقات کے بعد اپنی نجی اکیدمیز میں بھاری فیسوں کے عوض تعلیم دیتے ہیں۔ان ’’ٹیوشن مافیا اساتذہ‘‘ کی نجی اکیڈمی نہ جانے والے طلباء زیرِعتاب نظر آتے ہیں اوراس جرم کی پاداش میں انہیں مختلف بہانوں سے شدید ذہنی اذیت کا شکار کیا جاتا ہے اوربورڈ یونیورسٹی کا داخلہ تک روکنے کی گھٹیا حرکات بھی کی جاتی ہیں۔ہر سال پرائیویٹ بی ایس سی کرنے والوں کوگورنمنٹ کالجز سے عملی امتحان کے ہزاروں تصدیقی سرٹیفیکٹ دیے جاتے ہیں۔جبکہ ان بچوں نے تو کبھی پریکٹیکل لیب تک نہیں دیکھی ہوتی مگر ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نے دوہزار سے لیکر پانچ ہزار فی سرٹیفیکیٹ کی لوٹ سیل لگائی ہوتی ہے۔پانچ ہزار دے دو اور تصدیقی مہر ثبت کروالو۔ایک طرف یہ عالم ہے کہ طلباء کو گورنمنٹ کالج میں داخلہ نہیں مل رہا ہوتا تو دوسری طرف کالج پروفیسرز کی دوسروں شہروں میں قائم اکیڈمیزمیں پڑھنے والے کالج دیکھے بن ہی ریگولر داخلہ کے اہل ہوجاتے ہیں ۔اپنی اکیڈمی کی شہرت کو چار چاند لگانے اور من پسند نتائج حاصل کرنے کیلئے امتحانی سینٹرز کو نقل سنٹر میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے لاکھوں ذہین اور مستحق طلباء میں لیپ ٹاپ کی تقسیم سمیت فروغ تعلیم کیلئے کیے جانے والے اقدامات قابل تحسین اورمثبت پیش رفت ہے ۔وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اپنے سابقہ دور حکومت میں نقل مافیا کے خلاف بھرپورکاروائی کرتے ہوئے تعلیمی اداروں سے اس لعنت کا خاتمہ کیا تھا۔وزیر اعلیٰ صاحب آپ کا خواب پڑھا لکھا پنجاب اور میرٹ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی نقالی مافیا ہیں۔میں امید کرتا ہوں کہ آپ قوم کو مایوس نہیں کریں گے اور پہلے سے بھی زیادہ مستعدی سے ان تعلیم دشمن عناصر کے خلاف بلا رعایت و تفریق کاروائی عمل میں لائیں گے۔جب تک سرکاری اساتذہ کی صحافتی سرگرمیوں اور نجی تعلیمی ادروں میں تدریس پر عملی طور پر پابندی نہیں لگائی جاتی تب تک تعلیمی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔