تحریر:۔۔۔ رانا اعجاز حسین چوہان
رمضان المبارک کی فضیلت اور قدر و قیمت کے بارے میں حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو ایک خطبہ دیا اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا’’ اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے ، اس مبارک مہینہ کی ایک رات ( شب قدر ) ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیئے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہ خداوندی میں کھڑا ہونے ( یعنی نماز تراویح پڑھنے ) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے ( جس کا بہت بڑا ثواب ہے ) جو شخص اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کیلئے کوئی غیر فرض عبادت ( یعنی سنت یا نوافل ) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانہ کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا، اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے 70 فرضوں کے برابر ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مؤمنین بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے جس نے اس مہینے میں کسی ر وزہ دار کو ( اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کیلئے ) افطار کرایا تو اس کیلئے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہو گا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا۔ بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی آ جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ( تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟)، جس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی پر یا صرف پانی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض ( یعنی حوض کوثر ) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی حتیٰ کہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔ (اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا)اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے ، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ آتش دوزخ سے آزادی ہے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص اس ماہ اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کر ے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے دے گا ‘‘۔
اس خطبہ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا مطلب و مدعا واضح ہے کہ اس خطبہ میں ماہ رمضان کی سب سے بڑی اور پہلی عظمت وفضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزاروں دنوں اور راتوں سے نہیں بلکہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ یہ بات قرآن مجید کی سورۃ القدر میں بھی فرمائی گئی ہے بلکہ اس پوری سورۃ میں اس مبارک رات کی عظمت اور فضیلت ہی کا بیان ہے ، جو کہ اس مبارک رات کی عظمت و اہمیت سمجھنے کیلئے کافی ہے۔ ایک ہزار مہینوں میں تقریباً تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں، لیلتہ القدر کے ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہونے کا مطلب یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے اور اس کے قرب و رضا کے طالب بندے اس ایک رات میں قرب الٰہی کی اتنی مسافت طے کر سکتے ہیں جو دوسری ہزاروں راتوں میں طے نہیں ہو سکتیں۔ مثلاً جس طرح ہم اپنی اس مادی دنیا میں دیکھتے ہیں کہ تیز رفتار ہوائی جہاز یاراکٹ کے ذریعہ ایک دن بلکہ ایک گھنٹہ میں اس سے زیادہ مسافت طے کی جا سکتی ہے جتنی پرانے زمانے میں سینکڑوں برس میں طے ہوا کرتی تھی اسی طرح حصول رضائے خداوندی اور قرب الٰہی کے سفر کی رفتار لیلتہ القدر میں اتنی تیز کر دی جاتی ہے ، اس طرح نیکیوں کی جو منزل سینکڑوں مہینوں میں حاصل نہیں ہو سکتی وہ اس مبارک رات میں حاصل ہو جاتی ہے۔ مذکورہ بالاحدیث مبارکہ کی روشنی میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب بھی سمجھنا چاہیے کہ اس مبارک مہینہ میں جو شخص کسی قسم کی نفلی نیکی کرے گا اس کا ثواب دوسرے زمانہ کی فرض نیکی کے برابر ملے گا اور فرض نیکی کرنے والے کو دوسری زمانہ کے ستر فرض ادا کرنے کا ثواب ملے گا گویا ’’لیلتہ القدر‘‘ کی خصوصیت تو رمضان مبارک کی ایک مخصوص رات کی خصوصیت ہے، لیکن نیکی کا ثواب ستر گناہ ، یہ رمضان مبارک کے ہر دن اور ہر رات کی برکت اور فضیلت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان حقیقتوں کا یقین نصیب فرمائے اور ان سے مستفید اور متمتع ہونے کی توفیق عطاء فرمائے۔
رمضان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہ صبر اور غمخواری کا مہینہ ہے دینی زبان میں صبر کے اصل معنی ہیں اللہ کی رضا کیلئے اپنے نفس کی خواہشوں کو دبانا اور تلخیوں اور ناگواریوں کو جھیلنا ہے۔ ظاہر ہے کہ روزہ کا اول و آخر بالکل یہی ہے، اسی طرح روزہ رکھ کر ہر روزہ دار کو تجربہ ہوتا ہے کہ فاقہ کیسی تکلیف کی چیز ہے، اس سے اس کے اندر ان غرباء اور مساکین کی ہمدردی اور غمخواری کا جذبہ پیدا ہونا چاہیے جو بے چارے ناداری کی وجہ سے فاقوں پر فاقے کرتے ہیں۔ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اس بابرکت مہینہ میں اہل ایمان کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ اس کا تجربہ تو بلا استثناء ہر صاحب ایمان روزہ دار کو ہوتا ہے کہ رمضان میں جتنا اچھا اور جتنی فراغت سے کھانے پینے کو ملتا ہے باقی گیارہ مہینوں میں اتنا نصیب نہیں ہوتا۔ خواہ اس عالم اسباب میں وہ کسی بھی راستے سے آئے، یہ سب اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے اور اسی کے فیصلے سے آتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کی فضیلت اور قدر و قیمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آدمی کے ہر اچھے عمل کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھاد یا جاتا ہے۔روزے دار کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ روزہ خاص میرے لئے ہے ، اور میں ہی ( جس طرح چاہوں گا ) اس کا اجر و ثواب دوں گا۔ میرا بندہ میری رضا کے لئے اپنی خواہش نفس اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے ( پس میں خود ہی اپنی مرضی کے مطابق اس کی اس قربانی اور نفس کشی کا صلہ دوں گا ) روزہ دار کے لئے دو مسرتیں ہیں ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے مالک و مولیٰ کی بارگاہ میں حضوری اور شرف ملاقات کے وقت ۔ اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے ، یعنی انسانوں کیلئے مشک کی خوشبو جتنی اچھی اور جتنی پیاری ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں روزہ دار کے منہ کی بو اس سے بھی اچھی ہے، اور روزہ دنیا میں شیطان و نفس کے حملوں سے بچاؤ کیلئے اور آخرت میں آتش دوزخ سے حفاظت کیلئے ڈھال ہے، روزہ دار کو چاہیے کہ وہ بے ہودہ اور فحش باتیں اور شور و غل نہ کرے، اور اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوچ یا جھگڑا کرے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ دار کے بارے میں فرمایا کہ جب کسی کا روزہ ہو تو فحش اور گندگی باتیں اور شور و غل بالکل نہ کرے، اور اگر بالفرض کوئی دوسرا اس سے الجھے اور گالیاں دے تب بھی یہ کوئی سخت بات نہ کہے بلکہ صرف اتنا کہہ دے کہ بھائی! میرا روزہ ہے۔ اس ہدایت میں اشارہ ہے کہ اس حدیث میں روزہ کی جو خاص فضیلتیں اور برکتیں بیان کی گئی ہیں یہ انہی روزوں کی ہیں جن میں شہوت نفس اور کھانے پینے کے علاوہ گناہوں سے حتیٰ کہ بری اور ناپسندیدہ باتوں سے بھی پرہیز کیا گیا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ’’ جو شخص روزہ رکھے لیکن برے کاموں اور غلیظ باتوں سے پرہیز نہ کرے تو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے رویت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے کہ’’ جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ باب الریان ہے ، اس دروازے سے قیامت کے دن صرف روزہ داروں کا داخلہ ہو گا، اس دن پکارا جائے گا کہ کدھر ہیں وہ بندے جو اللہ کیلئے روزے رکھا کرتے تھے اور بھوک پیاس کی تکلیف اٹھایا کرتے تھے؟ وہ اس پکار پر چل پڑیں گے ،اور روزہ داروں کے علاوہ کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہو سکے گا ‘‘۔ ریان کے لغوی معنی ’’پورا پورا سیراب‘‘ ہے۔ روزہ دار کی بڑی قربانی جس کا احساس حالت روزہ میں سب سے زیادہ ہوتا ہے وہ پیاس ہے، اسی مناسبت سے جنت میں روزہ داروں کے داخلہ کیلئے جو مخصوص دروازہ مقرر کیا گیا ہے اس کی صفت سیرابی و شادابی ہے، جس سے روزہ داروں کا داخلہ ہو گا۔ اور آگے جنت میں پہنچ کر جو کچھ اللہ تعالیٰ کے انعامات روزہ داروں پر ہوں گے ان کا علم تو بس اللہ تعالیٰ کو ہی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کی جزا دوں گا‘‘ یہ قدرت کا بہت بڑا فیصلہ ہے کہ ایک مسلمان روزہ صرف رضائے الٰہی کیلئے رکھتا ہے اور کائنات کے مالک نے اس کا بدلہ اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ اللہ پاک ہمیں رمضان المبارک کے قیمتی ایام کے روزے رکھ کر اپنے نفس کا تذکیہ کرنے ، اور تقویٰ اختیار کرنے کی توفیق عطاء فرمائے تاکہ ہمیں رضائے الٰہی نصیب ہو۔ (آمین یا ربّ العالمین ) ۔