یوم تکبیر

Published on May 26, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 927)      No Comments

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
حسد، بغض اور کہنہ بھارت کے دماغ میں پاکستان کے خلاف روزِ اول سے ہی پیدا ہوگیا تھا ایٹمی توانائی‘ مادی وسائل‘ آبادی کے حوالے اور فلمی دنیا ،ڈرامے اور ڈرامے بازیوں کے حوالے سے بھارت پاکستان سے بہت بڑا ملک ہے ۔ لیکن جذبہ جہاد‘ جذبہ حریت اور حُبِ اسلام اور حب وطن کے اعتبار سے پاکستان‘ بھارت پر چھایا ہوا ہے۔ تاریخ کی ورق گردانی بتاتی ہے کہ 1947سے آج تک بھارت نے جب بھی اپنے ناپاک عزائم کے لیے پا کستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا‘ اسے منہ کی کھانا پڑی۔ 1956کی جنگ نے میدانِ بدر کی یاد تازہ کر دی۔ 1971کی جنگ‘ دراصل جارحیت تھی۔ اہل بنگلہ دیش کو آج بھی اپنی غلطی کا احساس ہے۔اور بنگلہ دیش پچھتاوہ کی آگ میں جھلس رہا ہے ۔1974میں بھارت نے ایٹمی تجربات کا سلسلہ شروع کیا‘اور 1998ئتک وہ خفیہ طو ر ایٹمی قوت بننے کے لییہر ممکن حد ترک گیا ‘بالآخر 11مئی اور13مئی 1998کو اس نے چھٹی ایٹمی قوت بننے کا اعلان کرنے کے لیے ایٹمی دھماکہ کر دیا۔ بھارت کے یک بعد دیگرے پانچ ایٹمی دھماکوں نے عالم اسلام سمیت پاکستان کو سکتہ میں ڈال دیا۔ 1965کی جنگ کی طر ح پو ری قوم اپنی سرگرمیاں چھو ڑ کر بھارتی ایٹمی دھماکہ کا جواب دینے کے لیے سینہ سپر ہوگئی۔ دنیا کی پانچ بڑی ایٹمی قوتوں نے سر جوڑ لیے۔ پاکستان کو دبانے‘ دھمکانے‘ لالچ دینے او ر دیگر حربے شروع ہوگئے۔ اپنے ہی گراتے ہیں نشے من پہ بجلیاں کی طرح کچھ اپنوں نے کہا کہ ایٹمی تجربہ کرنا پاکستان کے لئے مفید نہیں ہے‘ نام نہاد حب الوطن دانشمندوں ،قلم فروش‘ اور ضمیر فروش طبقہ نے پاکستان کے ایٹمی دھماکہ کرنے کو اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا قرار دیا۔ حکومت نے بکاؤ میڈیا ، منفی پراپوگنڈا ، عالمی دباؤ اور پابندیوں کے خو ف کے با وجو دبھارت کا منہ توڑ جواب دینے کا عزم کر لیا۔
آخر وہ ہی ہوا جس کا انتظار تھا۔نصر تِ خدا وندی نے پوری قوم کے اذہان پر دستک دی۔ یکم صفر 1419ھ‘ 28 مئی 1998ء جمعرات سہ پہر 3 بج کر 16منٹ پر فخر پاکستان‘ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بٹن دبایا نعرہئتکبیر‘ اللہ اکبر سے جو روح پرور منظر سامنے آیا۔ پاکستان کے غیور عوام ، حکومت اور فوج کے علاوہ عالم اسلام اور فرشتے بھی عش عش کرنے لگے وقت ٹھہر گیا۔ تاریخ کے اوراق نے کروٹ بدلی‘ چشم زدن میں چاغی کی پہاڑیاں اپنی قسمت پر ناز کرنے لگیں۔ دھماکہ ہوتے ہی پہاڑیاں‘ پہاڑوں سے جا ٹکر ائیں‘ پہاڑیوں کی رنگت بدل گئی‘ فضا روشن ہوئی‘ رحمت و نصرتِ خدا وندی نے سائنس دانوں کے چہر ے چوم لیے۔ وقت نے اس مقام کے گرد محنت کی پر کار سے دائرے کھینچ لیے یہ دائرے تا حشر قائم رہیں گے۔
حکومت نے28مئی کو یوم تکبیر کا نام دیا۔ جمہوری انداز سے اس نام کا انتخاب کیا گیا۔ جمہوریت میں سب کچھ ہی ممکن ہے۔ لہٰذا یو م تکبیر کا ہی اعلان ہوا ہے۔ یو م تکبیر دراصل یو م بقا ہے‘ یوم استحکام ہے‘ یوم وفا ہے‘ یوم تجدید سلامتی ہے‘ یوم فتح ہے او ریوم یک جہتی ہے۔ مسلمان جب بھی میدان کار زار میں اُتر تا ہے تو نعرہ تکبیر بلند کرتا ہے۔ نعرہ تکبیر جتنی بار بھی بلند کیا جائے کم ہے۔ کیونکہ اگر اللہ کی کبریائی بیان کرنا ہی ہماری زندگی کا مقصدہے تو ہمیں یہ ورد ہمہ وقت کرنا چاہیے۔
پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ’’ امت مسلمہ ‘‘ کی قیادت سونپی ہے ، یہی وجہ 28 مئی یوم تکبیر کے موقع پر ’’ پوری اسلامی دنیا ‘‘ میں جشن منایا گیا تھا، فلسطین ، بوسنیا، اور کشمیر کے گلی گلی ، کوچہ کوچہ ، نگر نگر اور ڈگر ڈگر نعرہ تکبیر اللہ ہو اکبر کی صدائیں گونجتی رہیں ، بہت سے اسلامی ممالک ہیں جہاں پر مٹھائیاں بانٹی گئی تھی اور ان اسلامی ممالک میں 28 مئی1998 کو کسی بھی حلوائی ، بیکری اور سویٹ شاپس پر مٹھائی جلیبی یا رس گلے وغیرہ کا ایک دانہ بھی نہیں بچا تھا ۔ یہ کیا تھا ؟یہ سویٹ ڈے دراصل ’’ پاکستان کا یوم تکبیر ‘‘ تھا، مجھے سیدے اور صاف الفاظ میں کہنے دو کہ پاکستان کا ایٹمی دھماکہ ’’ پاکستان کا نہیں عالم اسلام ‘‘ کا دھماکہ تھا ۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی کہ یوم تکبیر یعنی پاکستان کا پہلا اسلامی ملکوں میں ایٹمی پاور بننا ، پاکستان کی افواج کا دنیا کی نمبر ون فوج ہونا، کے ناطے سے دنیا اسلام نے جو امیدیں ہم سے وابسطہ کی تھی ہم ان کو عملی جامعہ نہ پہناسکے ۔ جس کی بہت سی وجوہات میں سے حکمرانوں کی دور اندیشی کا نہ ہونا سرفہرست ہے۔
اٹھائیسمئی کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی سلامتی کے دفاع کے لیے متحد ہو جائیں۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ لیکن ریاست قائم رہنے والی ہے۔ پا کستان اسلامی ریاست کے طور پر ابھرا ہے۔ اس لیے پاکستان کی بقا ہم سب کی اولین ترجیح ہے۔ یوم تکبیر مناتے ہوئے ہمارے اندرونی حالات کوئی حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ سیاست دانوں کی رسہ کشی‘ معاشی عدم توازن او رملک دشمنی سرگرمیاں زور پکڑ رہی ہیں۔ محب وطن قلمکاروں‘ فنکاروں‘ شاعروں‘ ادیبوں‘ صحافیوں‘ سیاست دانوں‘ علمائے کرام‘ خطیبوں او رذرائع ابلاغ کا فرض ہے کہ وہ قو م کو تاریکیوں سے روشنی کا راستہ دکھائی۔
محب وطن شہری حکومتِ پاکستان کے سرکاری اداروں سمیت پاک فوج سے التماس کرتے ہیں کہ 28مئی کو یوم تکبیر قومی جزبہ سے منایا جائے ،
انشااللہ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب اللہ پاک کی ذات اسلامی جموریہ پاکستان کو سچے پکے مسلمان حکمران نصیب کرے گا، جب پاکستان کو اللہ کی رضا والے حکمران نصیب ہو جائیں گئے تب عالم اسلام کی امامت کا سہرا اسلامی جموریہ پاکستان کے سر ہوگا۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Free WordPress Themes