تجزیہ ۔۔۔ منور انجم
سینٹرل پنجاب سے پیپلزپارٹی جنرل ضیاء الحق کے غیرجماعتی انتخابات کے بعد سے بتدریج ہاتھ دھوبیٹھی
اور اس بات کو 31 سال بیت چکے ہیں
آج 31 سال بعد بھی اگر پیپلزپارٹی کا سینٹرل پنجاب سے صفایا کیا جارہا ہے تو مجھے کافی تعجب ہے
جب 1997 کے انتخابات ہوئے تھے تو پیپلزپارٹی کو قومی اسمبلی کی صرف 18 سیٹیں مل سکی تھیں اور اس وقت پوری دنیا کے اخبارات میں یہ ہیڈلائنز لگی تھیں
پاکستان میں بھٹو کلا خاتمہ
اور آج اس بات کے 20 سال بعد پیپلزپارٹی کا وجود ختم ہونے کے دعوی پہ بھی مجھے کافی تعجب ہے
تحریک انصاف نے اگر پیپلزپارٹی کو نقصان پہنچانا ہے تو اپنے گھر خیبرپختونخوا یا جنوبی پنجاب اور سندھ میں پہنچائے، جہاں پیپلزپارٹی فوکس کررہی ہے
ابھی تو تحریک انصاف میں پیپلزپارٹی سینٹرل پنجاب کے وہ چند ناکام لوگ جارہے ہیں، جن کے ہونے یا نہ ہونے سے پیپلزپارٹی کو بظاہر کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ پیپلزپارٹی کے اکثر حلقے ان کے جانے سے اس لئے خوش ہیں کہ نئی قیادت کو ابھرنے کا موقع ملے گا
پیپلزپارٹی کے لوٹوں سے تحریک انصاف کی لٹیا اس لئے ڈوب جائے گی کہ یہ پہلے سے پی ٹی آئی کے لئے قربانیاں دینے والے لیڈرز کے مقابلے میں ٹکٹ لیں گے اور ہار بھی جائیں گے جس سے پی ٹی آئی اندرونی شکست وریخت کا شکار ہوگی
تحریک انصاف کے لئے بہتر ہوتا کہ وہ ان سفید ہاتھیوں کو پیپلزپارٹی کے کھونٹے سے بندھا رہنے دیتی جس سے پیپلزپارٹی ڈوب جاتی مگر ہر دس پندرہ سال بعد ایک ایسی ہوا چلتی ہے اور پیپلزپارٹی کا کچرا دوسرے لے جاتے ہیں اور پی پی نئی قیادت پیدا کرکے اپنے دامن پہ لگے سارے داغ دھو کر مظلومیت کے ساتھ عوام میں کھڑی ہوجاتی ہے اور چونکہ ڈیرے اور تھڑے والی سیاست سے واقف ہے تو اس مظلومیت کو خوب کیش بھی کراتی ہے
اگر جیالے لیڈروں کی شمولیت کی وجہ سے پی ٹی آئی کو دوسری پیپلزپارٹی کہا جارہا ہے تو یہ ایک سیاسی طنز ہوسکتا ہے ورنہ پیپلزپارٹی کے 18 اراکین اسمبلی جب پیٹریاٹ گروپ کے نام سے 2002 میں پرویز مشرف سے جاملے تھے تو کیا پرویز مشرف نے بھٹو کی جگہ لے لی تھی؟
دو ہزار دو میں پیپلزپارٹی سے منحرف ہونے والے اراکین اسمبلی بعد میں مسلم لیگ قاف میں شامل ہوئے اور پھر ماضی کے وہ بڑے نام ایسے گمنام ہوئے کہ آج ان کا کوئی نام لینے والا نہیں
پیپلزپارٹی بننے کے لئے پی ٹی آئی کو جیالے لیڈرز کی نہیں بلکہ شاید عوامی سیاست کی ضرورت ہے ورنہ ایم کیو ایم پاکستان کے پاس جیت کے سارے گھوڑے ہیں مگر یہ پوری پارٹی ایک ٹرک میں سما جاتی ہے، ایم کیوایم کا کارکن الطاف حسین کے ساتھ ہے
عین ممکن ہے کہ اگلے انتخابات میں الطاف حسین کہیں نہ ہو اور ایم کیو ایم پاکستان الیکشن جیت جائے مگر اس سے کوئی گدھا گھوڑا نہیں ہوجائے گا
سیاست صرف انتخابات جیت لینے کا نام نہیں ہے، سماج کی جڑوں میں اتر کر اپنے نظریات کو فروغ دینے کی جدوجہد سیاست ہے اور یہ کسی دیوانے کی بڑ ہوگی کہ نظریاتی سیاست دنیا سے ختم ہوگئی
سرمایہ دار مسلسل باور کرارہے ہیں کہ دنیا سے نظریاتی سیاست ختم ہوچکی ہے مگر فرانس میں میکرون کی جیت ہو یا امریکا میں ٹرمپ کی، انہیں نظریات سے ہی جوڑا گیا ہے
پاکستان میں جماعت اسلامی کی نظریاتی سیاست ہو یا جماعت اسلامی کے دوسرے چہروں مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کی، یہ جنگ نظریات کی ہی ہے
پیپلزپارٹی کے پہلے دور حکومت میں سیاست دانوں کی لوٹا کریسی نے پاکستان میں چھانگا مانگا پالیٹکس کی اصطلاح بھی متعارف کرائی کہ جب شریف خاندان نے سیاست دانوں کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے
شیخ مجیب الرحمان کے پاکستان توڑنے کے چھ نکات کی حمایت کے لئے پیپلزپارٹی کے اراکین توڑنے سے لے کر جنرل ضیاء کے اس دور تک جب پی پی قیادت کا زمینی وجود نہیں تھا اور صرف کارکنان رہ گئے تھے، پیپلزپارٹی نے حیرت انگیز طور پر ابھر کر دکھایا ہے
مبینہ طور پر اسامہ بن لادن نے پیپلزپارٹی کو ختم کرنے کے لئے نواز شریف کو خزانوں سے نواز دیا، اصغرخان کیس کے فیصلے کے مطابق آئی ایس آئی کے جرنیلوں نے پانی کی طرح پیسہ بہا کر بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں سیاست دان کھڑے کیے مگر پیپلزپارٹی ختم نہیں ہوسکی
اس کی ایک وجہ شاید ہر دور میں پیپلزپارٹی کو نئی لیڈر شپ بھی میسر آنا ہے، اعلٰی قیادت ماری جاتی ہے، دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت اچک لی جاتی ہے تو یہ مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزرتے رہتے ہیں
بھٹو کی وراثت تیسری نسل میں منتقل ہوچکی ہے اور یہ ان کی مضبوطی کی کافی بڑی دلیل ہے کہ اب بھی ان کے خاتمے کی صرف کوششیں ہورہی ہیں
مجھے تعجب ہے کہ 2013 میں تحریک انصاف کے امیدوار کے حق میں دستبردار ہونے والی فردوس عاشق ایوان کی پی ٹی آئی میں شمولیت کو اہم کیوں قرار دیا جارہا ہے جبکہ وہ چار سال پہلے عمران خان کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال چکی تھی، اسی طرح نذرگوندل کے بھائی کی وجہ سے پیپلزپارٹی کو پنجاب میں جو نقصان ہوا، اگر پی ٹی آئی نے اس کا ازالہ کردیا ہے تو اس میں تعجب کیسا ہے، نورعالم ارباب عالمگیر کے مقابلے میں پشاور میں اچھی پرفارمنس نہیں دکھاسکا تو پیپلزپارٹی کے لئے وہ ایک پٹا ہوا مہرا تھا، اس بوجھ کو اپنے سر لینے پر پی پی کو پی ٹی آئی کا مشکور ہونا چاہئیے
ہاں! نوابزادہ غضنفر کا پیپلزپارٹی چھوڑنا شاید جیالوں کے لئے جذباتی دھچکا ہو، ان کی انتخابی سیاست تو نوے کی دہائی میں ہی ختم ہوگئی تھی مگر ان کی شخصیت ایک آئیکون تھی
ندیم افضل چن اور کائرہ کے لئے غلط افواہیں اڑانا پی ٹی آئی کی کمزوری کو ظاہر کررہا ہے، عمران خان بڑے لیڈر ہیں، ان کو اس کی ضرورت نہیں ہے کہ کچھ لوگوں سے کالز کروا کر پیپلزپارٹی کے چلے ہوئے کارتوسوں کو نتھیاگلی بلائیں
جنرل پرویز مشرف نے 2007 میں ابوظہبی میں بے نظیر بھٹو کو کہا تھا کہ پنجاب کو بھول جاؤ، اب پیپلزپارٹی پنجاب نہیں لے سکے گی اور اس مسئلے کا احساس پیپلزپارٹی کو 10 سال سے ہے، پی ٹی آئی کچھ نیا نہیں کررہی
دنیا کا دستور ہے کہ سیاسی جماعتوں کا خاتمہ فطری طریقے سے ہی ممکن ہے، یہ اپنی موت آپ مرتی ہیں، جب تک غیرفطری طریقے سے ان کے خاتمے کی کوشش ہوتی رہتی ہے، یہ مزاحمت کرکے مزید طاقت ور روپ میں سامنے آتی رہتی ہیں