بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ایک میڈیا ورکشاپ میں کچھ پہنچی ہوئی شخصیات فرما رہی تھیں کہ ہم کہتے ہیں پاکستان کو اللہ نے ہر چیز سے نوازا ہے کیا ہے اِس مْلک میں نہ کھانا وافر ،نہ پانی موجود۔ معدنیات کے قدرتی ذخائر ہیں تو زیرِ زمیں دفن۔ مْجھے اْن سے شدید اختلاف تھا کیونکہ واقعی پاکستان خْدا کی طرف سے ایک نوازا ہوا مْلک ہے جِسے قْدرت نے ہر نعمت دی ہوئی ہے اور وافر مقدار میں دی ہوئی ہے۔اِسے استعمال میں لانا اور اِس کی منصوبہ بندی کرنا ہمارا کام ہے. قْدرت نے معدنیات دے دیں لیکن لوہا بنا کر اْسے خْدا نے نہیں داؤد(ع) نے ڈھالا،پانی کے لیے کشتی نوح(ع) نے بنائی،بیج خْدا نے بنایا تو فصل اِنسان نے بوئی اور کاٹی بھی۔ ہم بنی اسرائیل نہیں بنی اسماعیل ہیں، ہمارے لیے من و سلویٰ نہیں اْترے گا بلکہ ہم نے وادی، غیر ذی زرعہ مکہ کو خود آباد کیا. قْدرت کا جو کام تھا اْس نے کر دیا اَب اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے ہماری بھی کْچھ ذمہ داریاں ہیں جو ہم نے نبھانی ہیں.اِس وطن اِس مَٹی کا ہم سَب پر حق ہے اور اْس کو ہم نے ادا کرنا ہے،لیکن لگتا ایسا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک حتی المقدور صرف لینے کی کوشش میں مْبتلا ہے.ہمارے منصوبہ ساز کسی خلائی مخلوق کی آمد کے مْنتظر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارا انحصار آئی ایم ایف جیسے اداروں پر بڑھتا جارہا ہے.زرعی مْلک ہونے کے باوجْود ہم نہ صرف خوراک کی کمی کا شکار ہیں بلکہ زرعی ز مین کو اَب بھی مْسلسل ٹاؤن شپس میں تبدیل کیا جارہا ہے جسکی یقیناً حکومت سے اجازت لی جاتی ہے لیکن حکومتی منصو بہ ساز کسی فکر اور تشویش میں مْبتلا نہیں ہیں کیونکہ زرعی اجناس مہنگی ہوں یا سستی صنعتی اشیائے ضرورت کوڑیوں کے دام ملیں یا اونٹ ہاتھی کے نرخ ، اقتدار کے ایوانوں میں کوئی ہلچل نہیں مچتی.ایسی قراردادوں کی ابتدائی طور پر اسمبلی کے فلور پر مخالفت کر کے نام کما لیا جاتا ہے لیکن پھر اپوزیشن کے امرا بھی حکومتی تجاویز کی توثیق کر کے اسکو قانون بنا دیتے ہیں اور عوام کے کندھے مہنگائی کے بوجھ سے مزید دَب جاتے ہیں۔جو ٹیکس امرا کو دینا چاہیے ایک مزدور بھی دینے پر مجبور ہے،بجلی کا ایک بلب جلانے والا بھی ٹیکس دینے پر مجبور ہے اور گیس کو صرف کھانا بنانے کے لیے استعمال کرنے والا بھی چاہے وْہ اْسے کتنی ہی احتیاط سے استعمال کرے پھر بھی ٹیکس دیتا ہے،اگر یہ ٹیکس مْلک کی بہتری اور ترقی کے لیے استعمال ہوتا تو پھر بھی شائد عوام کو تسلی ہوتی کہ اْن کا پیسہ اْنہیں کے کام آرہا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ نہ تعلیم نہ صحت کْچھ بھی سستا نہیں ہے.کوئی عام آدمی بیمار ہو تو گھر والوں کو سَب سے پہلے مہنگی دواؤں اور ڈاکٹر کی فکر لاحق ہو جا تی ہے لیکن اِس سے ہمارے حکمرانوں کو اِس لیے فرق نہیں پڑتا کیونکہ وْہ بخار اور کھانسی کے علاج کے لیے بھی بیرونِ مْلک جاسکتے ہیں تعلیم مہنگی ہے تو بھی اْنھیں اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اْن کے بچے پاکستان کی عام تعلیم حاصل کرنے کی بجائے باہر کی یونیورسٹیوں میں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوتے ہیں.مْجھے اِس پر ہرگز اعتراض نہیں کیونکہ علم چاہے جہاں سے مِلے حاصل کرنا چاہے لیکن اگر یہ سَب قابلیت کی بنْیاد پر ہوتا،کس نے کہا کہ یہ بچے سَب سے لائق سَب سے قابِل ہیں پھر بھی یہ سَب قابلِ قبول ہوتا اگر یہ حکمران قوم کے اِن بچوں کی فکر کرتے جنہوں نے اِسی مْلک میں رہنا ہے اور اِس کی خدمَت کرنی ہے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ جو کاپیاں سال دو سال پہلے دَس روپے کی تھیں آج تیس چالیس روپے تک پہنچ چْکی ہیں دو روپے کی پنسل پانچ روپے کی مِل رہی ہے اور یوں وْہ بَچے جِن کے والدین دو وقت کی روٹی مشکل سے پوری کرتے ہیں وْہ تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں.اْن میں سے کوئی آوارہ گردی کرتے ہیں تو کوئی چور اْچکے اور ڈاکو بَن جاتے ہیں اور جو والدین اَپنے بچوں کو ہر حال میں پڑھانا چاہتے ہیں وْہ نہ صرف اپنا پیٹ کاٹتے ہیں بلکہ بچوں کی دیگر خواہشات بھی مار دیتے ہیں کیونکہ اْنہیں اْن کی فیس جو ہر سال پچھلے سال سے بڑھ جاتی ہے ادا کرنا ہوتی ہے۔
اَب ذرا آئیے آشیائے خوردنی کی طرف جو اَب سالو ں یا مہینوں میں مہنگی نہیں ہوتی بلکہ اَب ایک بار کے بعد دوسری بار بھی لینے جائیں تو قیمتیں بڑھ چْکی ہوتی ہیں ابھی آپ خود کو اِن بڑھی ہوئی قیمتوں کا عادی بنانے کی کوشش میں ہوتے ہیں کہ اس اضافے پر ایک اور اضافہ کر دیا جاتا ہے.
پاکستان ایک زرعی مْلک ہے لیکن آٹا، چاول،چینی تو اپنی جگہ پیاز،ٹماٹر،لہسن اور بینگن ہی لیجیے انہیں بھی کھانا مْشکل ہوتا جارہا ہے ایسے میں غریب آدمی جائے تو کہاں جائے اور کرے تو کیا کرے.اَیسے میں مجرموں اور خود کش بمباروں کا پیدا ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ ظاہر ہے وْہ دال جو غریب کی خوراک سمجھی جاتی تھی آج ڈیڑھ دو سو روپے کلو ہو چکی ہے۔
ہَم پاکستان کے حالات کو دْنیا کے حالات سے علیحدہ نہیں کرسکتے، مہنگائی آج تمام دْنیا کا مسئلہ ہے اور وْہ مجموعی طور پر مہنگائی کی لپیٹ میں ہے لیکن ایک غریب مْلک ہو نے کی وَجہ سے پاکستان کے عوام اِس بوجھ کو بدقت تمام اْٹھا رہے ہیں اور صْورتِ حال بگڑ تَب جاتی ہے جَب آئی ایم ایف جیسے اداروں سے مدد لینے کا خمیازہ اِس مْلک کے غریب عوام کو عجیب و غریب قسم کے ٹیکسوں کی صْورت میں ادا کرنا پڑتا ہے اور حالات کو اِس نہج پر لانے میں عوام سے زیادہ حکمران طبقہ ذمہ دار ہوتا ہے جو اَپنے آرام اور آسائش پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔اْن کے آگے پیچھے گاڑیوں کی فوج،شاہانہ عشائیے،قیمتی ملبوسات اور شاندار طرزِ زندگی سَب کْچھ جاری و ساری رہتا ہے.بیرونی دوروں پر کروڑں خرچ کر دیے جاتے ہیں اور پھر سارے اخراجات پْورے کرنے کے لیے عوام پر کوئی نیا ٹیکس لگا دیا جاتا ہے۔
صْورتِ حال مْشکل ضرور ہے مرض لاعلاج نہیں صرف پْر خلوص منصوبہ بندی اور اِس پر پْر خلوص عمل ہماری مْشکلات میں کمی کرسکتے ہیں اور عوام سے لیکر حکومتی سطح تک سادگی اپنانے سے ہم اَپنے بہْت سارے اخراجات کو کم کرسکتے ہیں. اِس کے لیے حکومت کو پہل کرنا ہوگی نہ صرف سادگی اپنانے میں اور اخراجات کم کرنے میں بلکہ اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر مْلکی مفاد میں جْرات مندانہ نہیں بلکہ عقلمندانہ اور بہترین فیصلے کرنے ہونگے،آئی ایم ایف اور بیرونی قرضوں کو ختم کرنا ہوگا، حکمرانوں کو بھی اَپنی سرمایہ کاری پاکستان میں کرنا ہوگی،تعلیم ،صحت اور خوراک جیسے شعبوں کو خصوصی توجہ دینا ہوگی. تبھی تاریخ سے مْعافی اور ناموری کی اْمید کرنا چاہیے۔