حصہ اؤل
مصنف۔۔۔ نرجس بتول علوی
مظہر نے ابھی ایف اے کا امتحان پاس کیا ہی تھا اس نے نوکری کے لیے فوج میں اپلاۓ کیا تھا شام کے وقت دروازے پر دستک ہوئ ناءلہ دروازے پر گئ ڈاکیا سے کاغذات لے کر واپس آتی ہے مظہر جو کے کمرے میں ہے ناءلہ بھائ جان ڈاکیا کچھ دے کر گیا ہے آپ کے نام مظہر کاغذات کھول کر دیکھتا ہے اور خوشی سے جھوم جاتا ہے اور امی کو آواز دیتا ہے امی میری نوکری لگ گئ ہے امی اس کا ماتھا چومتی ہے اور اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے .اب مظہر گھر سے سوات جانے کے لیے تیار کھڑا ہے یہ اپنے دوستوں کے ساتھ بس اڈا پر جاتا ہے اس کے دوست خوش بھی ہیں اور اس کے دور جانے پر اداس بھی مظہر انجم سے اماں اور ناءلہ کا خیال رکھنا کیونکہ تجھے تو پتا ہے اماں کی طبیعت خراب رہتی ہے اتنے میں بس آتی ہے مظہر سب دوستوں سے ملتا ہے انجم جب مظہر کو ملنے لگتا ہے اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں مظہر یار انجم تو تو ہمت نا ہار ابھی اماں اور بہن بھی رو رہی تھیں مظہر سوار ہو جاتا ہے اور مظہر بھی اداس بہت ہے یہ اپنے شہر کو بڑے غور سے اور بہت ہی دکھ بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا بآخر ان کی بس سوات کی وادیوں میں داخل ہوتی ہے یہاں پر ذندگی کا کچھ اور ہی رنگ نظر آیا اونچے اونچے پہاڑ پہاڑوں سے پھوٹتے ہوۓ آبشار اپنے خوبصورتی کا احساس دلا رہے تھے مظہر کی ڈیوٹی کی پہلی صبح اٹھ کر نماز پڑھتا ہے اس کے بعد یونی فام پہنتا ہے اور اپنے پاکستانی جھنڈے کو چوم کر ڈیوٹی پر جاتا ہے اس کی ڈیوٹی ایک پل پر ہے جہاں سے سارے شہر کی گزر ہوتی ہےمظہر کو دور سے پاءل کی آواز بہت بھلی لگتی ہے مظہر اپنے خیال میں ڈیوٹی میں مگن ہے پرمشاء اپنی بہن نازک کے ساتھ قہقے لگاتے ہوۓ پاس سے گزر جاتی ہیں مظہر کی نظر جب اس پر پڑتی ہے تو مظہر تو بس دیکھتا ہی رہ جاتا ہے اس کے لمبے حسین بال خوبصورت آنکھیں اور چاند سا چہرہ تو جیسے مظہر کے دل میں بیٹھ جاتا گیا ہو پرمشاء چند قدم چل کر پیچھے مڑ کر مظہر کو غور دیکھتی ہے اور پھر چلی جاتی ہے لیکن پرمشاء اور مظہر ایک دوسرے کو دیکھنےکے بعد بہت بے چین ہیں رات کو مظہر اپنے بستر پر لیٹا ہوا ہے اور چاند کو دیکھ کر مسکرا رہا ہے واہ کیا چہرہ ےتھا وہ حیا بھری آنکھیں وہ اس کا پلکیں جھوکا کر مسکرانا لڑکی تھی کے آفت سیدھا دل میں ہی گھر کر گئ ادھر پرمشاء کے حواسوں پر بھی مظہر کی تصویر چھا گئ ہے یہ سوچ رہی تھی کے کون تھا کہاں کا تھا پہلے تو کبھی نہیں دیکھا پتا نہیں کون تھا پر تھا شہزادہ دوسرے دن وقت سے پہلے مظہر ڈیوٹی پر پہنچ جاتا ہے پھر اس وقت پر پرمشاء گزرتی ہے مظہرکو دور سے پاءل کی آواز سنائ دیتی ہے تو اس کی آواز سے مظہر اپنے بال سنوارنے لگتا ہے ان جان سا بن کر کھڑا ہو جاتا ہے پرمشاء مظہر کے سامنے سے مسکرا کر گزر جاتی ہے اور مظہر اس کو دیکھتا ہی رہ جاتا ہے اورپرمشاء دھیرے دھیرے سے گز جاتی ہے کچھ دیر بعد مظہر کی نظر زمین پر پڑی پرمشاء کی پاءل پر پڑتی ہے مظہر اس کو بڑے پیار سے اٹھاتا ہے تیری آواز نے مجھے بے قرار کر رکھا تھا پر جو تیرے پہننے والی بڑی ظالم ہے تو میرے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس حسینا کے پاؤں میں اچھی لگتی ہے آج لگی نا میرے ہاتھ تیری چھن چھن نے تو میری راتوں کی نیند چرا لی ارے مظہر تو آیا تھا نوکری کرنے اور تجھے ہو گیا پیار یار اپنے آپ کو سمبھال کر رکھ اور پاءل کو چوم کر کوٹ کے جیب میں ڈال دیتا ہے ادھر پرمشاء گھر آتی ہء تو دیکھتی ہے کہ اس کے پاؤں میں پاءل نہیں کہاں کھوگئ نازک یار میری پاءل کہاں گئ نازک مجھے کیا پتہ تیرے پاؤں میں ہوتی ہے چھن چھن کرتی ہے پرمشاء ہاۓ اللہ پتہ نہیں کہاں کھو گئ میری پاءل اگر کسی لڑکے کے ھاتھ لگ گئ تو بدنامی ہو گی نازک ارے جناب کسی لڑکے ہاتھ نہیں بلکہ اس پل پر کھڑے فوجی کے پرمشاءہاۓ میں مر گئ نازک شرارت سے اسی فوجی پر مر گئ آخر دل کی بات زبان ہر آ ہی گئ پرمشاء بکواس نہ کر میری جان پر بنی ہوئ ہے اور تجھے مزاق سونجے ہوۓ ہیں نازک ہاں میں بھی سمجتی ہوں لہجے کا رخ آنکھوں میں محبت کی لہر مجھے نظر آ رہی ہے ویسے یہ محبت بھی عجیب شے ہے نہ کبھی تو برسوں ساتھ رہینے والوں سے نہیں ہوتی اور کبھی راہ سے گزرنے والوں سے ہو جاتی ہے محبت انسان کو اگر مل جاۓ انگ انگ کو اپنی خوشبو سے مطر کر دیتی ہے اور نہ ملے تو ناکامیوں کے سمندر میں دھکیل دیتی ہے تم میری بات مان لو تیری پاءل اس لڑکے کے ہی پاس ہے اور تیرا دل بھی پرمشاء اداسی کے انداز میں ہاں یار تم ٹھیک کہتی ہو لگتا تو مجھے بھی ایسا ہی ہے جب سے اسے دیکھا ہے دل اپنے قابو میں ہی نہیں رہا میری آنکھیں اس کو دیکھنے کے لۓ منتظر رہتی ہیں دل اس کے بنا بے قرار ہے میری راتوں کی نیند بھی اڑ گئ ہے میں جاگتی آنکھوں سے اس کے سپنے دیکھتی ہوں مجھے تو چین ہی نہیں ملتا جیسے بے قراری میرا مقدر گئ ہو ٹھیک کہتے ہیں محبت کسی جان پہچان کا نام نہیں ہے بلکہ یہ خود ہی ہو جاتی ہے محبت جان پہچان نہیں مانگتی مجھے ایسے لگتا ہےکہ میرا اور اس کا رشتہ برسوں کا ہے اور جیسے ہم ایک دوسرے کو بہت عرصے سے جانتے ہیں نازک چل یار پریشان نہ ہو کل جب ہم کپڑے دھونے کے بہانے جاءیں گے دریا پر تو اس سے مل کر میں پوچھ لوں گی کہ ہماری پاءل کل یہاں کھوگئ تھی اور اس کا نام پتہ بھی پوچھ لوں گی پرمشاء چل یہ ٹھیک ہے مظہر اپنے دوست سے پرمشاء کے بارے میں پوچھ رہا ہے جو پل سے لڑکیاں گزرتی ہیں وہ کون ہیں اسد کیوں خیریت ہے ہاں یار ان میں سے کسی کی پاءل کل گر گئ تھی پل پر اس لیے پوچھ رہا ہوں تاکہ واپس لوٹا سکوں اسد اچھا وہ انکل افتخار کی بیٹیاں پرمشاء اور نازک یہ پاءل پرمشاء کی ہے مظہر پرمشاء اچھا پرمشاء بڑی ظالم جان لیواہے اسد کچھ کہا مجھ سے مظہر نہیں اچھا اب نیند آ رہی ہے سونے دے اسد اٹھ کر چلا جاتا ہےمظہر بستر پر لیٹا ہوا ہے اس کے خیالوں پر پرمشاء چھائ ہوئ ہے