زندہ جرثومے کے ڈی این اے میں ویڈیو محفوظ کرلی گئی

Published on July 15, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 461)      No Comments


ہارورڈ: (یوا ین پی) کیا جانور اور انسانی گوشت کے اندر کوئی ڈیٹا، تصویر یا ویڈیو جمع کرسکتے ہیں؟
اس کا سادہ جواب ہے نہیں لیکن اب یہ ضرور ممکن ہوا ہے کہ زندہ بیکٹیریم (جراثومے) کے جینوم (ڈی این اے کے مجموعے) میں ویڈیو محفوظ کی گئی ہے۔انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ کارنامہ ہارورڈ یونیورسٹی نے سی آر آئی ایس پی آر (کرسپر) جینوم ایڈیٹنگ ٹول کے ذریعے انجام دیا ہے۔ اب ہم چھوٹے خردنامیوں کو لائبریری اور ڈیٹا ہارڈ ڈسک میں بدل سکتے ہیں۔ اس طرح ہم خلیات کو اس قابل بناسکتے ہیں کہ وہ اپنے امور کا ریکارڈ بناسکیں۔ اسی طرح بیماریوں کے حملے اور ان کے علاج کی مکمل ٹائم لائن بھی بنائی جاسکتی ہے۔سائنسداں کہتے ہیں کہ زندگی کی بنیاد اور حیاتیاتی کتاب ڈی این اے میں معلومات کا ایک خزانہ محفوظ رکھا جاسکتا ہے یعنی صرف ایک گرام ڈی این اے میں 100 ارب ڈی وی ڈیز کے برابر ڈیٹا رکھا جاسکتا ہے۔اس سے قبل ڈی این اے میں جو معلومات داخل کرنے کے جو تجربات کئے گئے وہ ان سے مصنوعی ڈی این اے بنانے کے لیے تھے۔ یعنی ڈیجیٹل معلومات کو ڈی این اے سلسلے میں بدل کر ان سے دیگر پیچیدہ اشیا بنانے کا کام لیا گیا تھا۔ لیکن اب ’’کرسپر‘‘ کے ذریعے ڈیجیٹل معلومات کو براہِ راست ایک زندہ جرثومے کے ڈی این اے میں منتقل کیا گیا ہے اور یہ تجربہ ای کولائی بیکٹیریم پر ہوا ہے۔بیکٹیریا کو CRISPR/Cas9 سسٹم کے ذریعے اپنے ڈی این اے میں ان تمام وائرسوں کا ریکارڈ رکھنے کے قابل بنایا گیا جن کا سامنا اس نے مختلف اوقات میں کیا اور اس سے جینوم کی ادارت (ایڈیٹنگ) میں بھی مدد ملی۔ اس طرح پورے جینوم پر نشانات لگائے گئے کہ کس مقام پر کس وقت کیا تبدیلی رونما ہوئی۔لیکن اب ہارورڈ یونیورسٹی کے سیتھ شیپمین اور ان کی ٹیم نے ایک مختلف اینزائم استعمال کیا جس کے ذریعے جینوم میں امیج رکھنے کی گنجائش پیدا کی گئی۔ ماہرین نے گھوڑا دوڑنے کی ان پانچ تصاویر کو لیا ہے جو 1878 میں ایڈورڈ مائے برج نے جانوروں کی حرکات سمجھانے کے لیے بنائی تھیں۔اس کے علاوہ انسانی ہاتھ کی تصویر کو بھی تجربے کا حصہ بنایا ہے جو اوپر تصویر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ دائیں جانب بیکٹیریا میں موجود اصل تصویر ہے جبکہ دوسری جانب بیکٹیریا سے اخذ کردہ تصویر ہے۔ نیچے کی ویڈیو میں گھوڑے کی تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔اسے ممکن بنانے کے لیے ماہرین نے خلوی دیوار (سیل وال)  کھولنے کے لیے اس میں ہلکا کرنٹ پہنچایا اور معلومات داخل کیں۔ اس کے بعد 6 لاکھ خلیات کے ڈی این اے کا سیکوئنس حاصل کیا کیونکہ ہر خلیے میں معلومات نہیں پہنچی تھیں۔ تمام خلیات کی معلومات کو ایک جگہ جمع کیا گیا اور یوں دوبارہ ویڈیو حاصل کرلی گئی۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Premium WordPress Themes