تحریر۔۔۔عابد حسین مغل
کچھ شک نہیں طاقت و اقتدارکا حقیقی سرچشمہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے ،ہم اسی کے تابع ہیں اسی کی بندگی کرتے اور اسی سے مدد مانگتے ہیں وہ مقتدر اعلیٰ ہے اقتدار خدا تعالیٰ کی طرف سے ہم میں سے کسی کو منتقل ہونا ایک امانت ہے یہ ایک حقیقت ہے جس پر ہم ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے راہنما جن کو ہم منتخب کرتے ہیں وہ اقتدار میں آتے ہی مصروف ہو جاتے ہیں گویا کہ خدا معاف کرے کائنات کے راز ان پر افشاں کئے جا رہے ہو ں جبکہ حقیقتاًفرعونیت اور منافقت ان میں سرایت ہو چکی ہو تی ہے جن کو عوام اپنا مسیہا و راہنما سمجھ رہے ہوتے ہیں۔بہت سارے لوگوں کی کسی ایک شخص سے جزبات ،عقیدت ،اور مطابقت اس شخص کو ان کا راہنما بنا دیتی ہے اور لوگ اپنے جزبات ،عقیدت ،اور مطابقت کے پیش نظر اپنے راہنما کی ہر بات کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے ہیں جو کہ ایک سیا سی راہنما کے لیے اونچی اُڑان کا سبب بنتی ہے۔لیکن ہوا بدلنے پر غبار نیچے بیٹھ جاتا ہے تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے یہاں کیسے کیسے حکمران ،بادشاہ، راجے مہاراجے آئے جنہیں اپنی سلطنت سیاہ،عوام،اقتدار پر بہت فخرتھا ایسے بھی تھے جن کی سلطنت میں سورج تک غروب نہیں ہوتا تھا لیکن جب برا وقت آیا تو کسی کو دو گز زمین نہ ملی اور کسی کا نام و نشان تک نہ رہا۔
تاریخ کھگالنا شروع کریں تو سیکڑوں مثالیں نظروں کے سامنے ہیں لیکن دور کیا جانا ہم اپنے وقت کی ہی بات کرتے ہیں اپنے ملک اور اپنے حکمرانوں کی مثال ہی لے لیجئے ایوب خاں کے آنے سے ملک میں صنعتی انقلاب آیا ،ڈیم بنے ،بجلی گھر بنے ،سڑکیں بنیں برآمدات درآمدات میں انتہا اضافہ ہوالوگوں کو روزگار میسر آیا تو عوام میں انتہا مقبولیت بڑھ گئی جس بنا پر طویل ترین عرصہ اقتدار میں گزارا کہا جاتا تھا کہ ایوب کے اقتدار سے جدا ہونے پر ملک معا شی و دفاعی طور پر کمزور ہو جائے گا پاکستان کا استحکام ایو ب خاں کے ساتھ لازم و ملزوم ہو چکا تھا لیکن افسوس کہ “ایوب کتا ۔۔۔۔ہائے ہائے “کی مہم نے انہیں گھر جانے پر مجبور کر دیا اور کوئی نا رویا ایو ب کے بعد یحیٰ آئے تو طاقتور ترین اور بااختیار صدر مانے جانے لگے کہ ملک ٹوٹنے کی سازش نے انکی کوئی لاج نہ رکھی تب بھی ان کے لئے کوئی نہ رویا ۔ ذولفقار علی بھٹو جنکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے عوامی لیڈر تھے وہ اس میں کچھ شک بھی نہیں جب ضیاء الحق نے بھٹو کو گرفتار کروایا تو جیالے کہتے تھے کہ بھٹو کی پھانسی پر ہمالیہ روئے گا تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی نہیں رویا تھا کسی نے چڑی تک نہ پھڑکنے دی تھی اور لوگ ہمالیہ کے رونے کی باتیں کرتے رہے مرد مومن ،مرد حق ضیاالحق طویل عرصہ اقتدار میں رہے بہت قربتیں تھیں انکی اتنے طاقتور تھے انہیں صرف موت ہی اقتدار سے جدا کر سکی لیکن سب کچھ آ پ کے سامنے ہے کہ انہیں کون اچھا کہتا ہے ان کے لیے کون روتا ہے ۔بینظیر کڑوروں دلوں کی ڈھڑکن اقتدار کے نشے میں شہید ہو گئیں اور پھر ان کے خاوند زرداری نے ان کے نام پر کیاحال کیاپھر بھی کوئی نا رویا آج منتخب وزیر اعظم نوازشریف کا احتساب ہو رہا ہے فیصلہ ابھی ہونے کو ہے کہ رن کانپ رہا ہے پنتیس سالہ سیاست کی رفاقتیں بدل رہی ہیں درباری معزز اداروں کو دھمکیاں دے رہے اور ڈرا رہے ہیں کہ قوم منتخب وزیراعظم کے ساتھ ہے زیادتی ہوئی تو قوم رووئے گی ۔افسوس کہ بادشاہ سلامت اور د رباری ابھی تک تاریخی حقیقتوں کے منکر ہیں حقیقت یہ ہے کہ منتخب وزیر اعظم کا جانا ٹھہر چکا ہے اب انکے لیے رونے والا کون ۔۔۔۔تب تک ان کے لیے اس شعر پر اتفاق کیا جائے
سارا شہر شناسائی کا دعویدار تو ہے لیکن
کون ہمارا اپنا ہے وقت ملا تو سوچیں گئے