تحریر۔۔۔ میر افسر امان
ہر قوم کے کچھ مقاصد ہوتے ہیں۔ اسی طرح بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے بھی پاکستانی قوم کو پاکستان بننے سے پہلے۲۲۔ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء لاہور منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس اپنی صدارتی خطاب میں لاکھوں مسلمانوں کے سامنے کچھ مقاصد بیان کیے تھے۔ یہ بات روز روشن کی طرع عیاں تھی کہ ہندوؤں کو اس اجلاس سے نفرت تھی کیوں کہ قاعد اعظمؒ مسلمانوں کوہندوؤں کی طرف سے ہندوستان میں اقلیت کے بجائے مسلمان قوم کی باتیں کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ مسلمان ہندوؤں سے الگ ایک قوم ہیں ہندوستان میں اس وقت ۹ کروڑ کی ایک مسلم قوم آباد ہے ۔جو ہندوستان سے رخصت ہوتے ہوئے انگریزوں کو بتانا چاہتے تھے کہ ۱۹۳۵ء کے ایکٹ کے تحت اگر مرکزی حکومت قائم کی گئی تو ہندو اکثریت کی بنیاد پر مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کریں گے جو سرا سر نانصافی ہو گی۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کا دو مختلف مذہبی فلسفوں والے مذہب ہیں۔ ان کے رہنے سہنے کے طریقے الگ الگ ہیں۔یہ آپس میں شادیاں نہیں کرتے۔ کھانے پینے کے طریقے الگ ہیں۔ان دونوں کی شجاعت ،دونوں قوموں میں جو ایک قوم کا ہیرو ہے وہ دوسری قوم کا دشمن ہے۔ ایک قوم کی فتوحات دوسری قوم کی شکست ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ ہندو اور مسلمان ایک قوم ہو کر نہیں رہ سکتے۔ اس اجلاس کے مقابلے میں ہندوؤں نے دہلی میں اسی دن اسی تاریخ کو کانگریس کا اجلاس رکھا تھا۔ لاہور ۱۹؍ مارچ کو بھاٹی دروازے سے خاکساروں کے جھتے آگے بڑھتے ہوئے رکاوٹ ڈالنے والے کچھ پولیس والے کو زخمی اور ایک انگریز افسر ہلاک کر دیا۔ انگریز پولیس نے اس کی بدلے میں ۴۰ مسلمانوں کو لاہور میں گولیاں چلا شہید کر دیا تھا۔لاء اینڈ آڈر کا بہانہ بنا کر انگریز حکومت کے سر سکندر حیات نے قائد اعظمؒ کو فون کیا اور اس تاریخی اجلاس کو منسوخ کرنے کا کہا تھا۔ مگر قائد نے اس کو منسوخ کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ طے شدہ پروگرام کے مطابق اسی جگہ اسی تاریخ کو ہو گا۔پھر قول اور ارادے کے پکے قائد اعظم ؒ ۲۱؍ مارچ کی صبح لاہور تشریف لائے۔ ۲۲ تا ۲۴ مارچ ۱۹۴۰ء یہ اجلاس منٹو پارک،اب مینار پاکستان میں منعقد ہوا۔برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے جُداگا نہ وطن کے قیام کی قرارداد مقاصدجوقراردادپاکستان کے نام سے مشہور ہوئی اس اجلاس میں منظور ہوئی تھی۔۲۲؍ مارچ سہ پہر آل انڈیا مسلم لیگ کا کھلا اجلاس ہوا۔ جس میں قائد اعظمؒ نے پچھلے پندرہ ماہ کے واقعات کا ذکر کیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا گزشتہ اجلاس دسمبر ۱۹۳۸ء کو پٹنہ میں ہوا تھا۔ قائد اعظم ؒ نے پہلے اردو میں تقریر شروع کی بعد میں انگریزی میں خطاب کیا۔ قائد اعظمؒ نے برطانوی حکومت،کانگریس اور یورپ میں جنگ کا ذکر کیا۔مسئلہ فلسطین پر آل انڈیا مسلم لیگ کا فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کا نقطہ نظر بیان کیا اور کہا ہندوستان کی فوج کسی مسلمان ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے۔پھر کہا کہ ہندوستان کے سارے صوبوں میں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدور کا تقرر ہو چکا ہے۔ ہندستان بھر کی مسلم خواتین میں زیادہ سے زیادہ سیاسی بیداری پیدا کرنا ہے۔قائد اعظم ؒ نے اجلاس میں واردھا اسکیم کا ذکر کیا میں مسلمانوں کو واپس ہندو بنانے کا پروگرام ہے۔قائد اعظم ؒ انگریز کی جانبداری کا ذکر کرتے ہوئے اجلاس کو بتایا کہ وائسرائے جنگ کے بعد مسلم لیگ سے مدد حاصل کرنا چاہتے تھے۔وائسرائے نے جنگ تک کبھی میرے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ وہ صرف گاندھی کو جانتے، مانتے اور ہندوستان کا واحد نمائندہ سمجھتے تھے۔جنگ کے بعد وائسرائے کو مسلم لیگ کی طاقت کا احساس ہوا۔ چنانچہ جب گاندھی کے ساتھ مجھے بھی وائسرائے کی طرف سے دعوت نامہ ملا تو مجھے حیرت ہوئی اور کانگریس کی ہائی کمان کو بے حد صدمہ ہوا۔یہ سب کچھ آل انڈیامسلم لیگ کی طاقت کی وجہ سے ہوا جس کا میں صدر ہوں۔ میں یہ بات کر کے آپ حضرات کو نظم و اتحاد کی قدر و قیمت اور اہمیت کا احساس دلانا چاہتا ہوں ۔ہم ہندوستان کی ایسی آزادی نہیں چاہتے جس میں گانگریس حکمران ہو ۔ مسلمان اور دوسری اقلیتیں محکوم ہوں۔جس کا مظاہرہ گانگریس کے زیر حکومت صوبوں میں اقلیتوں کے ساتھ رویہ سے ثابت ہوتا ہے۔پھر ان باتوں پر مسلم لیگ کا نقطہ نظر بیان کیا۔ اور آخر میں دو قومی نظریہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے عظیم ہندو رہنما لالہ لاجپت رائے جوہندو زہنیت کے صحیح ترجمان مانے جاتے تھے۔ ۱۹۲۴ء کے لکھے گئے ایک خط کے مندرجات بتائے۔ یہ خط بنگال کے عظیم اور مشہور ہندو لیڈر سی آر داس کو لکھا گیاتھا۔اس خط میں یہ تحریر تھا کہ ہندو اور مسلمان جو الگ الگ قومیں ہیں ان کو مصنوعی طور پر اکٹھا نہیں کیا جاسکتا۔ مسلمانوں کا قرآن اور حدیث ان کو ایسا کرنے سے منع کرتے ہیں۔ میں ہندوستان کے ۹ کروڑ مسلمانوں کے اتحاد سے خائف نہیں۔ میں اس دن سے پریشان ہو جب یہ افغانستان، وسط ایشیا،عرب میسوپوٹامیہ اور ترکی کے مسلح لشکر شامل ہو گئے تو پھر ان کا مقابلہ نہیں کیا جا سکے گا۔لوگ اس خط کو سن کر ششدرہو گئے۔اسٹیج پربیٹھے ملک برکت علی مرحوم کے منہ سے نکلا کہ لالالجپت رائے ایک ہندوؤ نیشنلسٹ تھے۔ قائد اعظم ؒ نے فوراً کہا کہ ہر ہندو اوّل و آخرہندو ہی ہوتا ہے۔ قائد اعظم ؒ نے انگریزوں کی سازش کہ جاتے وقت صرف کانگریس کو اقتدار دیا جائے۔ قائد اعظم ؒ نے بتایا کہ انگریزوں کی
مدّبروں کا خیال ہے کہ ۱۹۳۵ء کے ایکٹ کے تحت ہندوستان کا آئین ہو گا تو وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے مختلف اور متضاد عناصر میں ہم آہنگی پیدا ہو جائے گی اورتو
ہمات جو اس وقت موجود ہیں ختم ہو جائیں گے۔یوں بنیادی اور گہرے روحانی،اقتصادی،ثقافتی،سماجی اور سیاسی اختلافات کو محض توہمات قرار دے کر برصغیر ہندوستان کی تاریخ سے نہ صرف کھلم کھلا اعراض کے مترادف ہے بلکہ بنیادی تصوارات کو صریحاً نظر انداز کرنے کے برابر بھی ہے۔ایک ہزار برس کے قریبی روابط کے باوجود دونوں قومیں آج بھی ایک دوسرے سے اتنی ہی دور ہیں جتنی کبھی پہلے ہوا کرتی تھیں۔چنانچہ انہیں محض جمہوری آئین کا پابند بنا کے جبراً اکٹھا رکھ کر یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کبھی بھی ایک قوم بن بھی جائیں گے۔ ہندوستان کی وحدانی حکومت جو ڈیڑھ سو سال میں حاصل نہیں کر سکی۔ ایک وفاقی مرکزی حکومت مسلط کر کے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔اس طرح قائم ہونے والی کوئی حکومت ملک بھر کی مختلف قوموں اے اپنے لیے طاقت کے سوا کبھی بھی بررضا و رغبت بھی ان کا اعتماد اوروفاداری حاصل کر سکے گے۔ مسلمان ایک قوم ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم اپنی پسند اور امنگوں کے مطابق اور اپنے معیار اور نصب العین کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اپنی روحانی، ثقافتی،اقتصادی، سماجی اور سیاسی زندگی کو بہترین اور بھر پور طریقے پر ترقی دے سکے۔ہماری قوم کے کروڑوں افراد کے اہم مفادات ہم پر مقدس فرض عائد کرتے ہیں۔ ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں چار صوبوں، سندھ،پنجاب،بلوچستان اور سرحد میں ان کی اکثریت ہے۔ ان کا اپنا ملک بھی ہونا چاہیے۔میں درپیش مسائل بیا ن کیے ہیں۔ یہ کتابچے میں شائع کیے ہیں آپ مسلم لیگ کے دفتر سے حاصل کر سکتے ہیں۔ آزادی و خومختیاری محض دلائل دے کر حاصل نہیں کر سکتے ۔میں قوم کے اہل رائے سے اپیل کرتا ہوں کہ آزادی کی تحریک کو اپنے رگ و پے میں جاری و ساری کریں۔ اپنی قوم کے لیے قربانیوں کے لیے تیار ہوں۔ اپنی قوم کو منظم کریں اپنی تنظیم کو مضبوط کریں۔سارے ہندستان میں مسلمانوں کو منظم کریں۔مسلمان بیدار ہو چکے ہیں انہیں آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔اسلام کے خادموں کی حیثیت سے آگے بڑھیں اور اقتصادی، سماجی، تعلیمی اور سیاسی اعتبار سے انہیں منظم کریں۔پھر آپ ایک ایسی طاقت ہوں گے جسے ہر ایک تسلیم کرے گا۔ مولوی فضل الحق نے قرارداد مقاصدقراداد پاکستان پیش کی۔ لوگ خوش ہوئے ساور انتظار کرنے لگے کہ پاکستان کب وجود میں آئے گا جو سات سال کی قلیل وقت میں اللہ کے فضل سے مظہرِ وجود میں آ گیا۔