تحریر:ایم اے تبسم
اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی آزادی کے جشن کی تیاریاں ہونے لگتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے 14اگست کا دن نہ صرف خوشیاں منانے کا دن ہے بلکہ صحیح معنوں میں وطن عزیز کی ترقی اور اسے ہمیشہ قائم و دائم رکھنے کے لیے خلوص نیت اور دل سے عہد کرنے کا دن ہوتا ہے جو پاکستانیوں کو یاد دلا تا ہے کہ زندہ قومیں آزادی حا صل کرنے کے بعد ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھتیں بلکہ مزید ترقی کی راہوں پر گامزن رہنے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔ 70سال پہلے جس وطن عزیز کو حاصل کرنے کے لیے نظریاتی بنیادوں پر علیحدگی کا تصور کیا گیا تھا آ ج70سال بعد اسی وطن کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ ۔۔جس وطن عزیز کو حا صل کرنے کا مقصد انگریزوں کی غلامی سے نجات تھی آج اسی وطن میں لٹیروں اور وڈیروں کی غلامی رائج ہے ۔ ۔۔ جس خطے کی بنیاد اصولوں پر مبنی سیاست تھی آج اس خطے میں سیاست کی بنیاد کرپشن ہے۔۔۔جس ملک کو حاصل کرنے کا مقصدآزادانہ مذہبی نظام کو رائج کرنا تھا آج اس ملک میں کلمہ حق کہنا گالی ہے۔۔۔جس ارض پاک کو حقوق انسانی کا محافظ اور علمبردار سمجھا جاتا تھا آج اس ارض پاک میں حقوق انسانی پامال ہیں۔۔۔جس ملک کے بادشاہ کا اولین مقصد رعایا کو بنیادی ضرورتیں فراہم کرنا تھا آج اس ملک کی رعایا بھوک ، غربت اور دہشت گردی کی نظر ہو رہی ہے۔۔۔جس ملک کو عوامی جمہوریہ کہا گیا آج وہاں عوام اپنے حق سے محروم ہے۔۔۔
ایسے خطوں میں کہاں کا جشن اور کہاں کی آزادی؟ آزادی کا دن وہاں منایا جاتا ہے جہاں لوگ بھوک سے خود کشیاں نہ کر رہے ہوں ۔۔۔جہاں حق کو حق اور کفر کو کفر کہنے والوں کو موت کی آغوش میں نا اتارا جاتا ہو۔۔۔جہاں انصاف اولین ترجیح ہو جہاں منصف سچے ہوں۔۔۔جہاں طالب علم بے روز گاری کے ڈر سے کتابیں چھوڑ کر اسلحہ اٹھانے پر مجبور نہ ہوں۔۔۔جہاں کھیلنے والے ہاتھ انٹیں، گارا اٹھا کر پیٹ کی آگ نا بجھاتے ہوں۔۔۔
کامیاب قومیں وہ ہوتیں ہیں جو آزادی حاصل کرنے کے بعد ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھتیں بلکہ ماضی سے عبرت، حال میں محنت اور مستقبل میں سنہری راہوں کا انتخاب کرتیں ہیں۔مگر پاکستانی وہ قوم ہے جسکا حال ماضی سے بے حال اور مستقبل حال کے ہاتھوں پریشان ہے۔۔۔ جاپان اور روس جیسے ملک دوسری جنگ آزادی کے بعد تب تک چین سے نہیں بیٹھے جب تک انہوں نے اپنے لیے نئی راہیں تلاش نہ کر لیں۔۔۔
انور مقصود لکھتے ہیں! سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے ۔۔سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا ۔۔سنا ہے ہوا کے تیز جھوکوں میں مینا اپنے گھر کو بھول کر کوے کے انڈے پیروں میں تھام لیتی ہے۔۔سنا ہے گھونسلے سے جب بچہ گرتا ہے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے۔۔سنا ہے سیلاب آجائے تولکڑی کے تختے پر سانپ، چیتے اور بکری ایک ساتھ ہوتے ہیں۔۔اے میرے وطن کے منصفوں! میرے ملک میں بھی کوئی جنگلوں کا دستور لے آؤ۔۔۔
آج ہم جیسے لوگ انسان کہلوانے کے با وجود جانوروں سے کمتر ہیں جو ساری امیدیں ایک شخص سے وابستہ کیے ہوئے ہیں جسے وقت حاضر کا حکمران کہا جاتا ہے ۔۔ہم وہ قوم ہیں جو آزادی کا دن منانا قدیم روایت سمجھتے ہیں مگر آزادی کے معنوں سے بے خبر ہیں۔۔۔ ہم وہ قوم ہیں جو ٹیکسوں کے با وجود غربت کی انتہائی لکیر پر ہیں ۔۔۔ ہم وہ قوم ہیں جو بل ادا کرنے کے بعدبھی بجلی سے محروم ہیں۔۔۔ ہم وہ قوم ہیں جو اتحاد ، یقین اور تنظیم کو بھلا کرمیں اور میری کا سبق یاد کئے ہوئے ہیں۔۔۔
ایسی قوموں کا مقدر غلامی ہوتا ہے جو خود خواب غفلت سے جاگنے کو تیار نہ ہو۔جو اقبال کے انتظار میں ہو جن کے لیے کوئی اقبال پیدا نہ ہو۔۔ایسی قومیں مردہ ہوتیں ہیں جو آزاد تو ہوں مگر آزادی سے محروم ہوں۔۔۔
اے میرے ہم وطنوں! کہاں کا جشن کہاں کی آزادی ؟ جہاں پارلیمنٹوں میں بیٹھے ہوئے بے ضمیر افراد ضمیروں کا فیصلہ کرتے ہوں۔۔جہاں سچ کہنے والے کا سر تن سے جدا کر دیا جاتا ہو۔۔ جہاں مائیں اپنی ہی اولاد کو اپنی بھوک مٹانے کا ذریعہ بنا لیں ۔۔۔جہاں بیٹیاں کسی غریب باپ کی سزا بن جائیں ۔۔۔جہاں عذاب الٰہی سے ڈرنے ولا کوئی نہ ہو۔۔۔۔جہاں بے حسی ماؤں ، بہنوں کی عصمیتں لوٹ لے ۔۔۔ وہا�آزادی کاجشن نہیں ماتم ہوا کرتے ہیں۔۔۔۔۔