اسلام آباد(یو این پی) دفتری لباس کی بات کریں تو مغربی لباس، پینٹ، کوٹ اور نکٹائی ہی عام معیار سمجھا جاتا ہے لیکن اگر گرمیوں کے موسم میں ایئرکنڈیشنر تھوڑا کم کام کر رہا ہو تو بیچارے ورکرز کا حشر ہو جاتا ہے۔ اب تین ممالک میں کی جانے والی ایک تحقیق میں شلوار قمیض پہن کر دفتر جانے کا انتہائی حیران کن فائدہ سامنے آ گیا ہے۔ دی اٹلانٹک کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ، سویڈن اور ہانگ کانگ میں ماہرین نے لگ بھگ پوری دنیا کے روایتی ملبوسات پر تجربات کیے اور ان میں سے دفتر کے لیے بہترین لباس کا انتخاب کرنے کی کوشش کی۔ ماہرین نے تینوں جگہ پر لیبارٹریز میں بہت سی الیکٹرانک مینکنز (ملبوسات کی دکانوں کے باہر کپڑوں کی نمائش کے لیے کھڑے کیے جانے والے پتلے)اکٹھی کیں۔ ان مینکنز میں انسانوں کی طرح درجہ حرارت کو محسوس کرنے کے آلات نصب کیے گئے اور پسینہ آنے کے لیے الیکٹرانک پمپس کا استعمال کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق ماہرین نے ان مینکنز کو مختلف ممالک کے روایتی ملبوسات پہنائے۔ جو مینکن جس لباس میں جتنی زیادہ حدت محسوس کرتی اتنی ہی زیادہ بجلی صرف کرتی تھی۔ اس تجربے میں معلوم ہوا کہ شلوار قمیض وہ لباس ہے جس میں انسان کو سب سے کم گرمی لگتی ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ”دفاتر میں شلوار قمیض کو رواج دے کر بجلی کی بہت سی بچت کی جا سکتی ہے کیونکہ پینٹ کوٹ اور نکٹائی میں آنے والے ورکرز کی مانگ ہوتی ہے کہ دفاتر کے ایئرکنڈیشنز انتہائی درجے پر کام کریں اور دفتر ہر وقت برف بنا رہے۔ دفاتر میں جس قدر اے سی یونٹ استعمال کیے جا رہے ہیں اگر یہ رفتار رہی تو 2030ء تک دنیا بھر میں 70 کروڑ مزید اے سی یونٹ لگائے جائیں گے جو ہماری زمین کے لیے اور خود ہمارے لیے بہت نقصان دہ ہے۔