لاہور(یو این پی) وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور چند دیگر اہم رہنماﺅں کے مشورے پر نواز شریف نے وطن واپسی اور احتساب عدالت میں پیش ہونے کا فیصلہ کیا جس کے بعد سابق وزیر اعظم وطن واپس پہنچ چکے ہیں جبکہ مریم نواز اور ان کے ہم خیال تقریباً تمام پارٹی رہنما اس کے حق میں نہیں تھے تاہم پارٹی کے سینئر رہنماﺅں کا مشورہ مریم نواز کی خواہش پر غالب رہا۔ لندن میں موجود ذرائع کے مطابق نواز شریف نے یہ فیصلہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے مشورے پر کیا۔ اس سارے معاملے میں شہباز شریف کی مختلف شخصیات سے ہونے والی ملاقاتوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ واضح رہے کہ لندن روانگی سے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب نے سینئر پارٹی رہنما چوہدری نثار اور حکومت کی اتحادی پارٹی جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے اعلانیہ جبکہ چند دیگر اہم شخصیات سے غیر اعلانیہ ملاقاتیں کی تھیں۔ ذرائع نے بتایا کہ ہفتے کو رات گئے تک لندن میں ہونے والے طویل مشاورتی عمل میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنے بڑے بھائی نواز شریف کو آگاہ کیا کہ پارٹی کے چند سینئر رہنماﺅں کے علاوہ اتحادی پارٹی جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا بھی یہی مشورہ ہے کہ سابق وزیراعظم کو پاکستان واپس آکر احتساب عدالت میں پیش ہونا چاہیے۔ ذرائع کے مطابق مشاورتی عمل میں قانونی ماہرین سے لئے جانے والے ان پٹ کو بھی ڈسکشن کا حصہ بنایا گیا اور یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اگر نواز شریف دوسری بار بھی احتساب عدالت میں پیش نہیں ہوئے تو ان کے وارنٹ گرفتاری کے بعد زیادہ امکانات ہیں جبکہ عدم پیشی کا سلسلہ جاری رہنے پر آگے چل کر سابق وزیراعظم کو اشتہاری ملزم بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں انتخابی بل کے ذریعے نواز شریف کو پارٹی صدر بنانے کی کوششیں بری طرح متاثر ہو سکتی ہیں۔ اپوزیشن پہلے ہی ایک نااہل فرد کی پارٹی صدارت پر سوالات اٹھارہی ہے۔ ممکنہ صورتحال میں مخالفین کو پروپیگنڈہ کرنے کا زیادہ موقع مل جائے گا۔ ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے سابق وزیر اعظم کو بعض اہم شخصیات کے اس پیغام سے بھی آگاہ کیا، جس میں شریف فیملی کی جانب سے احتساب عدالت کے سمن کو سنجیدگی سے نہ لنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اس طرح کے رویے سے ملک میں قانون کی بالا دستی بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور ایک غلط روایت قائم ہو رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ پیغام وزیر اعلیٰ پنجاب کو چوہدری نثار کے ذریعے بالواسطہ بھی ملا۔ شہباز شریف نے یہ تمام زمینی حقائق تفصیل کے ساتھ اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے سامنے رکھے۔ ان تمام عوامل کو سامنے رکھ کر سابق وزیراعظم نے پاکستان واپسی اور احتساب عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حتمی فیصلہ کیا۔رپورٹ کے مطابق مریم نواز اور ان کے ہم خیال بعض پارٹی رہنما اپنے اس موقف پر قائم تھے کہ سابق وزیر اعظم لندن میں ہی قیام کریں اور کسی صورت احتساب عدالت میں پیش نہ ہوں تاہم وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ا ور وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس موقف کو یکسر مسترد کر دیا اور خود نواز شریف نے بھی اپنی صاحبزادی کے مشورے سے اتفاق نہیں کیا، یہ فیصلہ نہ صرف مقامی لیگی قیادت بلکہ اپوزیشن کے لئے بھی حیران کن تھا۔