تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
عربی گنتی میں دس کے عدد کو عشرہ کہا جاتا ہے ، جبکہ حرمت والے مہینے محرم الحرام کی دسویں تاریخ کانام’’ یوم عاشورہ ‘‘ بہت پہلے سے ہی چلا آ رہا ہے۔ لغت کی کتابوں میں یہ نام چار انداز سے ملتا ہے۔ عشوریٰ، عاشور، عاشوراء، عاشوریٰ، لیکن اردو میں لکھی گئی کتب میں اکثر جگہ ’’ عاشورہ‘‘ لکھا جاتا ہے۔ اس دن کو یوم عاشور کا خاص نام اس لئے دیا گیا کہ اس تاریخ کو بہت سے اہم واقعات پیش آئے ، چنانچہ کئی دسویں تاریخیں جمع ہونے کی بناء پر اس کا نام ’’ یوم عاشورہ ‘‘ ہو گیا۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمتہ اللہ علیہ ’’خصائل نبوی شرح شمائل ترمذی‘‘ صفحہ 180 میں لکھتے ہیں کہ ’’عاشوراء کو حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تھی ، حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ کے کنارے پر ٹھہری تھی، حضرت موسی علیہ السلام کو فرعون سے نجات ملی تھی، اور فرعون غرق ہوا تھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی، اور اسی دن آپ آسمان پر اٹھائے گئے، اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی اور اسی دن ان کی امت کا قصور معاف ہوا، حضرت یوسف علیہ السلام کنعان کے کنویں سے نکالے گئے، اور حضرت حضرت یعقوب علیہ السلام مشہور مرض سے صحت یاب ہوئے ، حضرت ادریس علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور اسی روز حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملک عطا ء ہوا، اسی روزجنت کے نوجوانوں کے سردار حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باطل کے سامنے کلمہ حق بلند کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا تم اس دن کیساروزہ رکھتے ہو۔ یہودیوں نے کہا یہ بڑی عظمت والا دن ہے، اس روز خدا نے موسیٰ اور ان کی قوم کو نجات دی، فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا، موسیٰ علیہ السلام نے شکر کے طور پر اس دن روزہ رکھا اس لیے ہم بھی رکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہم تم سے زیادہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حقدار ہیں پس آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود بھی روزہ رکھا اور دوسرے لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ (رواۃ البخاری ومسلم، مشکوٰۃ صفحہ 180)۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے (ایک طویل روایت میں) ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ عاشورہ کے دن کا روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے‘‘( صحیح مسلم) ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یوم عاشورہ کا روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو عرض کیا گیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس دن تو یہود ونصاریٰ تعظیم کرتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا‘‘ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھوں گا۔‘‘(روایت مسلم مشکوٰۃ صفحہ 179) لیکن اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم اگلا محرم آنے سے پہلے دنیا سے پردہ فرما گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم عاشورہ کا روزہ رکھو اور اس بارے میں یہود کی مخالفت اس طرح کرو کہ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ بھی رکھ لو۔ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے عاشورہ کا روزہ فرض تھا لیکن جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو پھر جس کا جی چاہتا عاشورہ کا روزہ رکھتا اور جس کا جی چاہتا نہ رکھتا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا’’ جس شخص نے عاشورہ کے دن اپنے اہل وعیال پرخرچ میں فراخی کی تو اللہ تعالیٰ تمام سال اس کے رزق میں فراخی فرمادے گا۔‘‘ ان تمام ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا کہ دسویں محرم کا تعلق اسلامی تعلیمات سے بہت گہرا ہے اور یہ دن ہر مسلمان کے لیے ارشادات نبوی کے مطابق قابل احترام ہے۔خلاصہ یہ کہ اس دن مسلمانوں کے لیے دو کام مستحب ہیں(۱) عاشورہ کے دن کا روزہ رکھنا اور اس کے ساتھ ایک روزہ نویں یا گیارہویں محرم کا شامل کر لینا۔ (2) گھر میں روزانہ کے معمول کے مقابلہ میں کھانے کے دسترخون پر اپنی حیثیت کے مطابق کشادگی اور فراخی پیدا کرنا اور اس سلسلہ میں مذکورہ حدیث کی روح کو مد نظرر کھنا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اعمال صالحہ کی توفیق عطاء فرمائے ، آمین۔