تحریر: ایم خزیمہ کیلانی
پچھلی کئی صدیوں سے یہود کے شاطر دماغوں نے تسخیر عالم کا جو منصوبہ بنایا ،اور اہل عالم کے خلاف جو خفیہ منصوبے بُنے۔دنیا کو اس کی بھنک اس وقت پڑی جب 1922ءمیں خلافت عثمانیہ ٹوٹ چکی تھی،اور مسلمان مغلیہ سلطنت کے بعد آخری خلافت بھی کھو بیٹھے تھے۔اسی دوران جبکہ مسلمان اپنی خلافت پر ماتم کررہے تھے ، یہود کے خفیہ منصوبوں پر مشتمل دستاویزات مختلف زبانوں میں تراجم ہوکر کتابی شکل میں دنیا کے سامنے آئیں۔جس نے ساری دنیا اور بالخصوص مسلم دنیا کوششدر کردیا کہ جن کے ساتھ دو دو ہاتھ ہوچکے تھے۔جس وقت خلافت عثمانیہ کی بساط لپیٹی گئی اس وقت اسرائیل کے قیام کا قابل عمل منصوبہ اقوام عالم بالخصوص امریکہ،برطانیہ اور روس کے پالیسی ساز اداروں کے ہاں زیر غور تھا۔جس میں سب سے بڑی رکاوٹ خلافت عثانیہ تھی جس کی موجودگی میں اسرائیل کا قیام ناممکن تھا۔ لہذا اس بات کو ممکن بنانے کے لئے عثمانی خلافت کو جس طرح جنگ میں الجھا گیا، اور جنگ میں ناکامی کے بعد جس طرح خلافت کے تاروپود بکھیرے گئے اس نے امت کو منتشر کردیا ۔خلافت کیا بکھری،مسلم علاقے ملک در ملک تقسیم ہوئے،ہر ملک نےایسی سرحدی لکیر کھینچی کہ اپنے آپ کو امت مسلمہ کے درد سے بے گانہ کردیا،مسلم مفادات سے بالاتر ذاتی اور ملکی مفادات نے جس طرح مسلم ممالک میں انا پرستی اورتعصب کے بیج بوئے ،اس کی فصل آج ہمیں کٹتی ہوئی محسوس رہی ہے۔سن 2001ءسے ہی شاطر دماغوں نے امت مسلمہ کے خلاف جو جال بْننے شروع کئے اورامن کی پرچارک نام نہاد جنگ نے جس طرح دنیا بالخصوص مسلم ممالک کا امن تہ وبالا کیا ،اس نے مسلمانوں میں بھی ذاتی مفادات اور نفرت کی دیواریں کھڑی کردیں۔اور 2011ءمیں معمولی سے سانحہ سے جنم لینے والے بحران نے جس بے یقینی کی صورت حال پیدا کی تھی وہ چھ سال بعد بدلتی دکھائی نہیں دے رہی۔مگر حیرت ہوئی جب گزشتہ دنوں بشار الاسد کی میڈیا اور پولیٹیکل ایڈوائیزر بثینہ شعبان کا بیان آیا کہ’’ شام میں جلد ہی جنگ بندی ہونے والی ہے،دمشق عالمی میلے کے انعقاد اور علاقائی لوگوں کا اس میں حصہ لینا شام میں بیرونی طاقتوں کی ناکامی ہے،اور ملک میں تعمیر وترقی کا پہیہ پٹڑی پر چڑھ چکا ہے‘‘۔حیرت ہےانتہائی سخت سکیورٹی میں جب میلہ کا انعقاد ہوگا تو اس میلہ کو تہ وبالا کرنے کون اس کے پاس پھٹکے گا۔حقیقت سے نظریں چرانے سے حقیقتیں نہیں بدلتیں،اور اس طرح کی حکومتیں نہ جانے کن خوابوں کی دنیا میں رہتی ہیں۔،پہلے تو ہیلری کلنٹن نے صرف الزامات لگائے تھے کہ داعش امریکہ اور اسرائیل کی پیداوار ہے مگر اب تو پچھلے دنوں لبنان میں سرگرم داعش کے ونگ میں موساد کےسپیشل یونٹ کا خفیہ ایجنٹ بھی پکڑا گیا ہے ۔ جو ابوحفص کے نام سے داعش میں موجود تھا جبکہ اسکی شناخت بنجامین افرایم کے نام سے ہوئی ہے۔بنجمن کی موجودگی بھی ہیلری کی بات کو تقویت دے رہی ہے۔اور دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کے حمایت یافتہ وہ گروہ ہیں جن میں1971ءسے حکومتِ خاندانِ اسد کےخلاف لاوا پک رہا تھا،انہیں بھی کھل کر سامنے آنے کا موقع ملا ،جبکہ تیسری طرف شام میں اہل بیت کے مزاروں کی حفاظت کے نام پر نام نہاد محافظ ایرانی ملیشیائیں پہنچ گئی جنہوں نے شام میں اپنے پشت بانوں کے زیرسایہ اودھم مچا رکھا ہے۔کیا ایسی صورتحال میں ممکن ہے کہ شام میں جنگ بندی ہوسکے ۔مشرق وسطی میں ہر ایک کے مفادات کی جو دوڑ شروع ہوئی ہے اس نے مشرق وسطی کا امن ختم کرڈالا ہے ۔ بظاہر اس بحران کو ختم کرنے میں اپنااپنا کردار ادا کرتے کھلاڑیوں نے جو شطرنج کی بساط بچھائی ہے وہ فی الحقیقت اسرائیل کے باقاعدہ قیام کو جواز دینے کی کوششیں ہیں۔ اور گریٹر اسرائیل کے خواب کو تعبیر میں بدلنےکے لئےجو دوڑ اسرائیل اور امریکہ نے شروع کی ہے وہ وہ ہر ذی شعور جانتا ہے۔فی الوقت تو عالمی طاقتوں کے مفادات نے انہیں ایک دوسرے کےسامنے لاکھڑا کیا ہے۔ شام میں امریکہ کےحمایت یافتہ اپوزیشن جماعتوں کی کمر توڑنے کے لئے روس مسلسل بمباری کئےجارہا ہے ۔دوسری طرف امریکہ داعش اور اپنے مخالف جماعتوں کے خلاف ائیر سٹرائیکس کرکے نہتے شہریوں کا قتل عام کررہاہے،ہر دو طرف نقصان مسلمانوں کا ہی ہورہا ہے۔پھرروس اور ترکی میں بڑھتی قربتوں نے شام میں روس کی موجودگی کواسرائیل اور امریکہ کے لئے مزیدخطرناک بنادیا ہے کیونکہ ایشیا میں موجودہ اتحادپاکستان ، چین اور روس کا ہے اور ترکی جسے اسرائیل اس وقت اپنے راہ میں کانٹا سمجھ رہا ہےوہ بھی اسرائیل کو پریشان کئے بیٹھا ہے ۔اوراس وقت عالمی طاقتوں کی نظر میں مسلسل کھٹک رہا ہے ۔شام میں صدر اسد کے ساتھ ایران اور روس کا اتحاد ہے،جن کی اپریل14 ،2017کو روس میں سہ فریقی میٹنگ ہوئی جس میں سرگئی لاروف،ولید معلم اور جواد ظریف نے کھل کر امریکہ پر تنقید کی۔مگر ایران اور روس ایرانی ملیشیاؤں سمیت شیعہ کے مختلف مسالک کی شام میں موجودگی کو مسلسل نظر انداز کرتے رہے اور اب بھی کررہے ہیں۔جو مسلسل فرقہ واریت کو ہوا دے رہے ہیں، جن میں علوی/نصیری فرقہ جو انتہائی متعصب ہے سرفہرست ہے اور بشار الاسد کا تعلق بھی اسی فرقہ سے ہے۔ اس وقت بشار کی پشت پر ایران اور روس ہیں جنہیں امریکہ کی موجودگی ایک آنکھ نہیں بھارہی اور نہ ہی امریکہ روس وایران کو برداشت کرنے پر تیار ہے ،حیرت کی بات ہے کہ روس جس نے گزشتہ دو روز پہلے بمباری کرکے آٹھ سو نہتے شہری شہید کردئیے ہیں ،وہ بھی امریکہ کومسلسل تنقید کا نشانہ بنارہاہے ۔صورت حال یہ ہے کہ نہ روس چاہتا کہ اسرائیل اور امریکہ شامی سرزمین سے آگے بڑھیں کیونکہ اس صورت مشرق وسطی پر قبضہ کرکے گریٹر اسرائیل کی جو راہ ہموار ہوگی،وہ فی الوقت روس اور چین کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں ہوگی۔اور نہ ہی امریکہ اور اسرائیل روس کو شام سے نکالنا چاہتے ہیں تاکہ روس کو شامی جنگ میں مزید الجھایا جائے۔ مگرجو عزائم امریکہ لے کر شام میں آموجود ہوا کہ ترک،شامی اور عراقی کرد علاقے کو ان ممالک سے الگ کرکے علیحدہ ملک بنادیا جائے،فی الوقت روس،ایران اور شام کا گٹھ جوڑ ان امریکی عزائم کے سامنے رکاوٹ ہے اور بثینہ شعبان نے بھی کرد علاقوں کی علیحدگی کے منصوبے کو سختی سے رد کیا ہے ۔ رہابشار الاسد توخود وہ بھی نہیں چاہتا کہ ایرانی ملیشیائیں یہاں سے نکلیں کیونکہ اس صورت میں اس کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہے،ایران اور روس کے نکلنے پر بشار کی حکومت چند دنوں کی مہمان ہوگی۔اسی لئے بشار ایرانی ملیشائیں کسی صورت نہیں نکالنا چاہتا ۔دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں بشار حکومت کو کسی صورت برداشت نہیں کرپارہی اور بشار کی اقتدار سے فورا علیحدگی کا مطالبہ کررہی ہیں۔مگر حیرت کی بات ہے کہ بثینہ شعبان امریکہ اور ترکی پر باغیوں کی مدد کا الزام اور انہیں شام سے نکلنے کی تنبیہ دے رہی ہے،مگر ایران اور روس کی موجودگی سے بشار حکومت مسلسل چسم پوشی کررہی ہے۔کیا شام میں خانہ جنگی کی وجہ صرف ترکی،امریکہ اور باقی بیرونی طاقتیں ہیں،کیا روس اور ایران کی موجودگی شام میں امن عامہ کے لئے رکاوٹ نہیں ہے۔جو خود بھی کھلے عام قتل وغارت گری میں مصروف ہیں اورتنقید مسلسل باقیوں پر کررہے ہیں۔ عالمی طاقتیں ،ایرانی ملیشیائیں اور امریکی حمایت یافتہ جماعتیں جب تک شام سے نکل نہیں جاتیں،اقوام متحدہ اور او-آئی- سی جب تک