تحریر۔۔۔ مقصود انجم کمبوہ
یورپین ممالک میں پولیس کو سیاسی مقاصد کے لئے کبھی استعمال میں نہیں لا یا جاتا (پولیس کا فرض ہے مدد آپکی) کے اصول پر کام کرتی ہے گلیوں اور بازاروں میں کوئی پولیس اہلکار نظر نہیں آئے گا مخصوص اور اہم مقامات پر پولیس نظر آتی ہے یا پھر ہنگاموں اور احتجاجی مظاہروں کے وقت پولیس کو دیکھا جاسکتا ہے ورنہ پولیس آوارہ گردی کرتی نظر نہیں آئے گی جاپان میں سڑکوں پر گھومتی پولیس نہیں دیکھ پائیں گے خال خال کوئی پولیس اہلکار نظر آئے گا اس کے باوجود ان ممالک میں اسٹریٹ کرائم بہت کم ہوتے ہیں جہاں قانون کی حکمرانی ہو وہاں کرائم بھی نہیں ہوا کرتے مشاہدے میں آیا ہے کہ جاپان میں پولیس اہلکار عوام کی مدد کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہے آپ ان کے دئیے ہوئے فون نمبر پر ضروری ہوتو کال کرسکتے ہیں فون ملتے ہی پولیس اہلکار آپکی مدد کو پہنچیں گے بلغاریہ تائیوان ، سنگا پور اور چین میں جرائم کی شرح بہت کم ہے بلغاریہ میں بہت ہی کم ہے ترقی یا فتہ ممالک میں پولیس کی سائنٹیفک بنیادوں پر تعلیم و تربیت کا نظام موجود ہے انہیں تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا درس بھی دیا جاتا ہے بچوں اور بوڑھوں کے لئے پولیس کا روئیہ بہت نرم ہوتا ہے پولیس کو مراعات اور ضروری سہولیات سے بھی نواز اجاتا ہے تنخواہوں کے ساتھ ضروری الاونسسز بھی دئیے جاتے ہیں انکی عام زندگی کی ضروریات کا بطور خاص خیال رکھا جاتا ہے پولیس افسران کے لئے خصوصی مراعات ہیں انکے درجات بلند کرنے کیلئے معیارات رکھے گئے ہیں جرمن میں پولیس میں کتوں کی بھی بھرتی کی جاتی ہے باقاعدہ ایک سیل قائم کیا گیا ہے کتوں کی تربیت بھی سائنٹیفک بنیادوں پر کی جاتی ہے ان کے عہدے بھی ہیں صاف ستھرا کھانا وغیرہ دیا جاتا ہے تحقیق و تفتیش کے لئے بطور خاص استعمال کیا جاتا ہے بہت سے کیسوں میں کتے بہت کام آتے ہیں مجرموں کی تلاش اور پکڑ دھکڑ بھی ان ہی کے ذریعے عمل میں لائی جاتی ہے کتوں کی تربیت پر کافی خرچ آتا ہے کتوں پر آنے والے اخراجات کو باقاعدہ بجٹ میں رکھا جاتا ہے سالانہ بجٹ بناتے وقت ان اخراجات کے حساب سے رقوم مختص کی جاتی ہیں جو کتے بوڑھے ہوجاتے ہیں انکو ایک خصوصی کالونی میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں انکی دیکھ بھال کا بہتر انتظام ہے جسامت کے لحاظ سے ایک بھی موٹا پولیس اہلکار کہیں نظر نہیں آئے گا انتخاب کے وقت معیا ر کا خصو صی خیال رکھا جاتا ہے تعلیم ، قد ، جسامت تجربہ، اخلاقی قدریں اور بہت کچھ دیکھا جاتا ہے قوانین سخت ہونے کی وجہ سے بد نظمی کہیں نہیں ملے گی ہر اہلکار اور افسر اپنی ڈیوٹی کا ذمہ دار ہے وقت کی پابندی ، نظم و ضبط اور دیانتداری انکی تربیت کا خاصا ہے مجال ہے کہ کوئی اِ دھر اُدھر کی مارے کسی آفیسر کو بلف کرے جھوٹ سے سخت نفرت اور ہر شعبہ میں ایسے اہلکاروں پر خاص توجہ رکھی جاتی ہے جھوٹ بولنا نوکری سے بر طرفی کا موجب ہے اس لئے زندگی کے ہر شعبہ میں جھوٹ ، بد دیانتی ، بد نظمی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے میرٹ سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کیا جاتا مگر ہمارے ہاں وہ سب کچھ ہوتا ہے جو ترقی یافتہ ممالک میں نہیں ہوتا ہماری پولیس کا تبلہ درست نہیں ہو سکا شریف شہری چوکی تھانے جاتے ہوئے خوف و ہراس میں مبتلا ہوجاتے ہیں کیونکہ پولیس کی تربیت ہی اس انداز سے کی جاتی ہے کہ انکا سامنا کر نے اور بات کرنے پر ڈر سا محسوس ہوتا ہے حالانکہ شہری کسی جرم میں بھی مبتلا نہیں ہوتا پھر بھی اس کی سانس پھول جاتی ہے ہمارے ہاں پولیس کو ایسے ہنر اور گُر سکھائے جاتے ہیں کہ وہ اپنے عام شہر یوں کو مطمئن کرتے وقت ایسا لہجہ استعمال کرتے ہیں جس سے شہری نروس ہوجاتا ہے ہماری پولیس جھوٹ ، بددیانتی ، بد عملی اور بد انتظامی سے شرابور ہے چند ایک اچھے خاندان کے افراد مل جاتے ہیں جن کے روئیے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خاندانی ہیں ویسے بھی زیادہ تر پولیس میں ایسے خاندانوں کے افراد بھرتی ہیں جن کا تعلق ہی جرائم سے ہوتا ہے بد انتظامی و بد عملی ان کے خون میں رچی بسی ہوتی ہے جب سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی بھرتی ہونے لگی ہے کچھ تبدیلی مشاہدے میں آئی ہے مگر آہستہ آہستہ یہ لوگ بھی انہی جیسے ہوجاتے ہیں حرام خوری کا عنصر ہماری پولیس میں بہت زیادہ پایا جاتا ہے سچی حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری پولیس کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور پھر سیاسی بھرتیاں اور سیاسی مداخلت بھی ضروری سمجھی جاتی ہے ن لیگ کے پہلے دورمیں پولیس ، ریونیو ، فوڈ اور دیگر اہم اداروں میں ارکان اسمبلی کے عزیز و اقارب کو بھرتی کیا گیا فوڈ انسپکٹر ، اسسٹنٹ سب انسپکٹر ، سب انسپکٹر ، انسپکٹر ، نائب تحصیل دار اور تحصیل دار کی بھرتیاں کی گئیں یہی وجہ ہے کہ بد اعتمادی ، بد نظمی اور بد اعما لی زوروں پر ہے اگر کوئی پکڑا جاتا ہے تو سیاسی مداخلت سے باعزت بری کر دیا جاتا ہے جس ملک کے حکمران خود ہی کرپٹ اور بد عنوان ہوں گے وہاں اچھائی اور بہتری کی امید رکھنا گناہ ہے اللہ کرے ہماری اعلیٰ عدلیہ سیاست کو کرپشن و بد عنوانی جیسی برائیوں سے پاک بنانے میں اپنا اعلیٰ کردار ادا کریں تو انشاء اللہ امید کی جاتی ہے کہ آنے والا کل ترقی و خوشحالی لائے گا اور ہم بھی خود کو اعلیٰ کردار کی قوم کہلا سکیں گے ۔