کراچی: (یواین پی)اسٹیٹ بینک نے معاشی نمو کیلیے سازگار ماحول اور مہنگائی کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہ ہونے کی وجہ سے پالیسی ریٹ کو5.75 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔اسٹیٹ بینک نے کہاہے کہ اہم فصلوں کے سازگار ابتدائی تخمینوں، نجی شعبے کو قرض میں بھرپور نمو اور بڑھتی ہوئی پیداواری درآمدات سب سے نشاندہی ہوتی ہے کہ حقیقی شعبے میں ٹھوس فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ غذا کے کافی ذخائراور اجناس کی بین الاقوامی مستحکم قیمتوں کی بنا پر عمومی مہنگائی مالی سال18کے پہلے 2ماہ میں کم ہوئی تاہم بلند معاشی نمو کے راستے میں بڑھتے ہوئے چیلنجز ہیں جن کی جزوی وضاحت مالی سال2018کے آغاز میں کی گئی تھی۔ ان میں بیرونی محاذ پر ابھرتا ہوا دباؤ اور توسیعی مالیاتی پالیسی شامل ہیں۔مالی سال2018جوں جوں آگے بڑھے گا اشیا سازی کی سرگرمیوں کو بلند ترقیاتی اخراجات، سی پیک سے متعلق منصوبوں میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری، امن وامان کے حالات میں بہتری اور قرض گیری کی مسلسل مستحکم اور کم لاگت سے فائدہ پہنچنے کی توقع ہے۔مزید برآں فعال صنعتی منظرنامے اور اہم فصلوں کی خوش آئند جانچ کے مثبت اثرات خدمات کے شعبے تک پھیلیں گے۔ شعبہ زراعت کی نمو کی موجودہ پیش گوئیوں کی بنیاد پر مالی سال2018 میں جی ڈی پی نمو کا سالانہ ہدف 6.0 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ جس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی ملکی طلب کو پورا کرنے کی استعداد بہتر ہوگی۔ اوسط مہنگائی بہ لحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI) جولائی تا اگست مالی سال 2018 میں کم ہوکر 3.2 فیصد ہوگئی جبکہ گذشتہ سال اسی مدت کے دوران 3.8 فیصد تھی۔ گندم اور چینی کے کافی ذخائر موجود ہیں اس لیے مالی سال2018میں رسدکے لحاظ سے کوئی بڑی خرابی پیدا ہونے کی توقع نہیں۔یہ امر ستمبر 2017 کے آئی بی اے ایس بی پی کے اعتماد صارف سروے سے بھی عیاں ہے جس سے آئندہ 6 ماہ کے دوران متوقع مہنگائی میں تھوڑے سے اضافے کا پتہ چلتا ہے۔ اگرچہ یکم جولائی تا 15ستمبر مالی سال2018 کے دوران نجی شعبے کو قرض میں 80.6 ارب روپے کی واپسی درج کی گئی تاہم اس کی سال بسال نمو 15ستمبر 2017 کو 21.1 فیصد تک پہنچ گئی ہے جبکہ 16ستمبر 2016 کو 7.7 فیصد تھی۔ جس سے سال کے دوران 892 ارب روپے کے اضافے کی عکاسی ہوتی ہے۔قرضے کی طلب میں اضافے کی بڑی وجہ ایک طرف تاریخی پست شرح سود اور دوسری طرف بڑھتی ہوئی تعمیراتی سرگرمیاں اور صارفی پائیدار اشیا تھیں۔ مالی سال 18 کے پہلے 2ماہ میں جاری حساب کا خسارہ بڑھ کر2.6 ارب ڈالر ہوگیا ہے۔اس کی بنیادی وجہ پیداواری اشیا کی بلند درآمدات خصوصاً مشینری، دھاتی اشیا اور پیٹرولیم کی مصنوعات کی درآمد ہے۔ جولائی2017کی معلومات سے تقابل کریں تو برآمدات کی حوصلہ افزا تصویر سامنے آتی ہے۔ تاہم سی پیک سے متعلق جاری سرمایہ کاریوں اور ملک میں معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے درآمدات بڑھنے کی توقع ہے۔بیرون ملک مقیم کارکنوں کی گھٹتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ترسیلات زرکی نمو سست ہونے کی توقع ہے۔ چنانچہ ملک کے بیرونی کھاتے اور زرمبادلہ کے ذخائرمیں بہتری کا انحصار سرکاری رقوم کی بروقت آمد نیز وسط مدت میں تجارتی مسابقت کو بہتر بنانے کے لیے ساختی تبدیلیوں کو سوچ سمجھ کر اختیار کرنے پر ہے۔مذکورہ بالا حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی نے پالیسی ریٹ کو5.75 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔