اسلام آباد(یوا ین پی)سپریم کورٹ میں نااہلی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا ہے کہ کیا ثبوت ہے جہانگیر ترین کے پاس 18 ہزار ایکڑ زمین لیز پر تھی؟جو پیش کیے جارہے ہیں یہ رجسٹرڈ لیز معاہدے نہیں۔جبکہ جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیازمین لیزپرلینے کامحکمہ مال کاریکارڈ موجود ہے؟ شک پیدا ہورہاہے زمین کسی اور کے نام پر حاصل نہ کی گئی ہو،اس طرح کے معاہدوں میں بے نامی کی زمین ہوتی ہے۔سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کی نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت آج( بدھ )تک ملتوی کردی۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جہانگیر خان ترین نااہلی کیس کی سماعت شروع کی تو عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے روسٹر م پر آکرموقف اپنایا کہ بنی گالہ اراضی کے نقشے کی رقم عمران خان نے گوشواروں میں ظاہر کی تھی اور نقشہ مسترد ہونے پرنقشہ نویس نے رقم واپس کردی تھی جبکہ جمائمہ کو5لاکھ 62000کی رقم عمران خان نے ادا کی اور عدالت میں جمع کرائی گئی دستاویزات سے جمائمہ کورقم وصولی ثابت ہوتی ہے جبکہ عمران خان نے 2008 میں الیکشن میں حصہ نہیں لیا اور2008 سے 2013تک عمران خان عوامی عہدہ نہیں رکھتے تھے جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ یہ دستاویزات شروع میں جمع کروادیتے توبہترہوتا۔ دوسری پارٹی کودستاویزات پراعتراض اٹھانے کاموقع میسرآتا چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مخالف فریق نے دستاویزات پراعتراض اٹھائے ہیں جس پر نعیم بخاری نے کہاکہ دستاویزات پراعتراض کااصول دونوں جانب مساوی اطلاق ہوگا لندن فلیٹ درخواست گزار کا ایشو نہیں تھا درخواستگزار کا ایشو آف شور کمپنی کو ظاہر نا کرنے کاہے ۔ اور2007سے 2013تک الیکشن کمیشن عمران خان سے کچھ نہیں پوچھ سکتا تھا اس دورانیہ میں ایف بی آر عمران خان سے ٹیکس معاملات پر سوال کر سکتا ہے نعیم بخاری نے کہاکہ درخواست گزار کے الزامات پر اپنی طرف سے تمام دستاویزات دی ہیں ، چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کیاعمران خان نے 2003سے2007تک نیازی سوسز لمیٹیڈ کے اکاونٹ میں رکھے ایک لاکھ گوشواروں میں ظاہرکیے ؟نعیم بخاری نے کہاکہ نیازی سروسز کے اکاونٹ میں رکھے ایک لاکھ پاونڈ عمران خان کے نہیں تھے اور نیازی سروسز کے اکاونٹ کا مکمل ریکارڈ نہیں ملا جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ جوریکارڈ آپ کے حق میں ہومل جاتاہے دوسرانہیں ملتا اس دوران اکرم شیخ نے کہاکہ عدالت متفرق درخواست میں نوٹس جاری کرے میں جواب دوں گااور آئین کے آرٹیکل 184/3کے مقدمے میں کبھی اس طرح دستاویزات جمع نہیں ہوسکتیں، اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ انہوں نے 1997 سے 2012تک اصغرخان کیس بھی لڑا ہے اس موقع پر عدالت نے عمران خان کے جواب پرحنیف عباسی کو نوٹس جاری کردیا۔ جس کے بعد جہانگیرترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ جہانگہرترین کی لیز زمین کاریکارڈ حاصل کیاہے ،وقت کی کمی کی وجہ سے طریقہ کارکے تحت ریکارڈ جمع نہیں کرواسکا انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ جہا نگیرترین نے 18ہزار500ایکڑ زمین 2010 میں لیزپرحاصل کی اور وہ 1978سے کاشت کار ہیں ،جہانگیرترین گنا کپاس اورآم کی کاشت کاری کرتے تھے جبکہ انہوں نے 2002میں شوگرمل قائم کی اور لیزپر لی گئی زمین پرگنااگایاگیاجوجہا نگیرترین شوگر مل نے خریدا۔ ان کا کہنا تھا کہ اٹھارہ ہزار ایکڑ زمین 150 کلومیٹر کے دائرہ میں واقع ہے اور اس زمین پر 86 فارم تھے، 2002 میں لیز پر لی گئی 2 ہزار ایکڑ زمین 2011 تک 20 ہزار ایکڑ تک پہنچ گئی جسٹس عمر عطا بندیا لنے سوال اٹھایا کہ جہانگیر ترین نے اپنی ذاتی زمین 200 ایکڑ کس کو فروخت کیے، اگر کاشت کاری سے بہت آمدن ہو رہی تھی تو زمین فروخت کیوں کی، جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ فروخت کی گئی زمین لودھراں میں تھی، چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ اسکا ثبوت کیا ہے کہ جہانگیر ترین کے پاس 18 ہزار ایکڑ زمین لیز پر تھی، وکیل نے جواب دیا کہ زمین لیز کے ثبوت موجود ہیں، زمین لیزپرلینے کے تمام معایدے موجود ہیں ، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ رجسٹرڈ لیز معاہدے نہیں ہیں جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ کیازمین لیزپرلینے کامحکمہ مال کاریکارڈ موجود ہے ؟جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ لیززمین کی تمام ادائیگیاں کراس چیک کے ذریعے کی گئیں جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ سوال یہ ہے کہ جنھیں ادائیگیاں ہوئیں وہ مالک تھے کہ نہیں زمین کے اصل مالک اورکاشت کاری کا محکمہ مال سے معلوم ہوگا ،خسرہ گرداوری منگوانے کامقصد یہی تھا وکیل نے جواب دیا کہ زمین کی کاشت کی آمدن کا بھی مکمل ریکارڈ موجود ہے، اورخسرہ گرداوری بھی محکمہ مال سے حاصل کر کے پیش کیے جا سکتے ہیں اور زمین مالکان کے بیان حلفی بھی۔لیے جا سکتے ہیں۔جس پر چیف جسٹس نے سوال اٹھایاکہ بیان حلفی کیوں، خسرہ گرداوری کیوں نہیں،؟عدالت کو محکمہ مال کا ریکارڈ درکار ہے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ محکمہ مال کاریکارڈ,دیں اس کی تصدیق محکمہ مال سے کرواسکتے ہیں ۔اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں زمین مالکان محکمہ مال کے ریکارڈ میں کاشت کارکانام لکھنے نہیں دیتے کیونکہ ان علاقوں میں لیزپرکاشتکارزمین پرقبضہ کرلیتے ہیں اس لیے مالکان لیزکاشتکارکانام محکمہ مال میں درج نہیں کرواتے چیف جسٹس نے کہاکہ لیزمعاہدوں پرمالک کی زمین کانہیں لکھااسکی زمین کتنی اورکدھرہے اس لئے عدالت کو مطمئن کریں جن سے زمین لیزپرلی وہ زمین کے مالک تھے ، وکیل کا کہنا تھا کہ جہانگیرترین نے لیززمین کی 1.9ارب روپے ادائیگی کی توکیااس ادائیگی کی کوئی ایمیت نہیں ہے جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ س وقت لیز زمین کی ادائیگیوں کے ریکارڈ کی اہمیت نہیں لیکن ہم ریکارڈ کو مسترد نہیں کر رہے ہم پہلے محکمہ مال کا ریکارڈ دیکھنا چاہتے ہیں، وکیل سکندر بشیر نے کہاکہ کراس چیکس کے زریعے مالکان کو چند ہزار کی ادائیگی نہیں کی۔ اور جہانگیرترین کوفی ایکڑ 22ہزارروپے آمدن ہوئی جبکہ جہانگیرترین کی کوشش ہوتی ہے کہ ہرچیز کے دستاویزات ریکارڈ رکھاجائے اس دوران حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے کہاکہ ٹیکس حکام کے روبرو جہانگیرترین اپناموقف نہیں پیش کرسکے ۔ چیف جسٹس نے جہانگیرترین کے وکیل سے مکالمہ میں کہاکہ لیز معاہدوں میں زمین کے کھاتوں اورموضع کاذکرنہیں ہے اور اگر کراس چیک کی ادائیگیوں پرآبزرویشن دی توآپ کے لیے مسائل ہوں گے کیونکہ ممکن ہے کی کسی کاشناختی کارڈ لے کر لیز معاہدہ لکھ لیاگیاہو اس لئے دیکھنا ہے جس سے معاہدہ ہوا کیاوہ مالک تھایانہیں۔ اس دوران وکیل سکندر بشیر کاکہنا تھا کہ ایگری کلچرل ٹیکس ایشوز پرجہانگیرترین کوآرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہل نہیں کیاجاسکتا کیونکہ پنجاب میں زرعی آمدن کی اسیسمنٹ کاکوئی طریقہ کارنہیں اور سسٹم میں غلطی کاقصوروار جہانگیرترین کونہیں ٹھہرایاجاسکتا چیف جسٹس نے کہاکہ قانون کے تحت زرعی آمدن والے کوٹیکس دیناہے ۔