ماہ صفر کی بدعات

Published on October 25, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 875)      No Comments

تحریر۔۔۔ عابد علی یوسف زئی
اسلامی سال کا دوسرا مہینہ صفرالمظفرشروع ہو چکا ہے۔یہ مہینہ زمانہ جاہلیت سے منحوس، آسمانوں سے بلائیں اترنے والا اور آفتیں نازل ہونے والا مہینہ سمجھا جاتا ہے۔ زمانہء جاہلیت کے لوگ اس ماہ میں خوشی کی تقریبات (شادی ، بیاہ اور ختنہ وغیرہ )قائم کرنا منحوس سمجھتے تھے ۔ قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ یہی نظریہ نسل در نسل آج تک چلا آرہا ہے حالانکہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی صاف اور واضح الفاظ میں اس مہینے اور اس مہینے کے علاوہ پائے جانے والے توہمات اور قیامت تک کے باطل نظریات کی تردیداور نفی فرما دی اور علیٰ الاِعلان ارشاد فرما دیا کہ:’’(اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر) ایک شخص کی بیماری کے دوسرے کو (خود بخود)لگ جانے(کا عقیدہ) ، ماہِ صفر (میں نحوست ہونے کا عقیدہ)اور ایک مخصوص پرندے کی بد شگونی (کا عقیدہ)سب بے حقیقت باتیں ہیں‘‘۔
ماہِ صفر کے متعلق نحوست والا عقیدہ پھیلانے کی خاطر دشمنانِ اسلام نے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب جھوٹی روایات پھیلانے جیسے مکروہ اور گھناونے افعال سے بھی دریغ نہیں کیا۔ ذیل میں ایک ایسی ہی من گھڑت روایت اور اس پر ائمہ جرح و تعدیل کا کلام ذکر کیا جاتا ہے،وہ من گھڑت حدیث یہ ہے:
’مَنْ بَشَّرَنِیْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّۃِ
اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے صفر کے مہینے کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔ یہ حدیث موضوع ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت کرنا جائز نہیں ہے۔ 
ملا علی القاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مَنْ بَشَّرَنِیْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّۃِ لَا أصْلَ لَہ
فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ :’’میں نے ایسے لوگوں کے بارے میں دریافت کیاجو ماہِ صفرمیں سفر نہیں کرتے(یعنی: سفر کرنا درست نہیں سمجھتے )اور نہ ہی اس مہینے میں اپنے کاموں کو شروع کرتے ہیں۔ مثلاً: نکاح کرنا اور اپنی بیویوں کے پاس جاناوغیرہ اور اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو جو مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوش خبری دے گا، میں اُسے جنت کی بشارت دوں گا سے دلیل پکڑتے ہیں،کیا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانِ مبارک (سند کے اعتبار سے )صحیح ہے؟ اور کیا اس مہینے میں نحوست ہوتی ہے ؟ اور کیا اس مہینے میں کسی کام کے شروع کرنے سے روکا گیا ہے ؟تو جواب ملا کہ ماہِ صفر کے بارے میں جو کچھ لوگوں میں مشہور ہے، یہ کچھ ایسی باتیں ہیں جو اہل نجوم کے ہاں پائی جاتیں تھی، جنہیں وہ اس لیے رواج دیتے تھے کہ ان کا وہ قول ثابت ہو سکے ،جسے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے تھے حالانکہ یہ صاف اورکھلا ہوا جھوٹ ہے۔
اس منگھڑت اور موضوع روایت کو ایک طرف رکھیں ، اس کے بالمقابل ماہِ صفر کے بارے میں بہت ساری صحیح احادیث ایسی موجود ہیں جو ماہِ صفر کی نحوست کی نفی کرتی ہیں، تو ایسی صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے موضوع حدیث پر عمل کرنایا اس کی ترویج کرنا اور اس کے مطابق اپنا ذہن بنانا کوئی عقل مندی کی بات نہیں۔
محدثین عظام کی تصریحات کے مطابق مذکورہ حدیث موضوع اور منگھڑت ہے، لیکن اگر کچھ لمحات کے لیے یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ یہ حدیث صحیح ہے تو بھی اس حدیث سے ماہِ صفر کے منحوس ہونے پر دلیل پکڑنا درست نہیں ہے بلکہ اس صورت میں اس کا صحیح مطلب اور مصداق یہ ہو گا کہ چوں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ربیع الاول میں وصال ہونے والا تھااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے رب عزوجل سے ملاقات کا بے حد اشتیاق تھا، اس لیے ربیع الاول کے شروع ہونے کا انتظار تھا۔ چنانچہ اس شخص کے لیے آپ نے جنت کی بشارت کا اعلان فرما دیا جو ماہِ صفر کے ختم ہونے کی (اور ربیع الاول شروع ہونے کی)خبر لے کر آئے۔
خلاصہ کلام !یہ کہ اس حدیث کا ماہِ صفر کی نحوست سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے بلکہ اسے محض مسلمانوں میں غلط نظریات پھیلانے کی غرض سے گھڑا گیا ہے۔
ماہِ صفر کے بارے میں لوگوں میں مشہور غلط عقائد و نظریات میں ایک اس مہینے کے آخری بدھ کا نظریہ بھی ہے کہ اس بدھ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیماری سے شفا ملی اور آپ نے غسلِ صحت فرمایا لہٰذااس خوشی میں مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں، شیرینی تقسیم کی جاتی ہے اور بہت سے علاقوں میں تو اس دن خوشی میں روزہ بھی رکھا جاتا ہے اور خاص طریقے سے نماز بھی پڑھی جاتی ہے۔ یہ بالکل خلاف حقیقت اور خلاف واقعہ بات ہے۔ اس دن تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات کی ابتداء ہوئی تھی نہ کہ مرض کی انتہاء اور شفاء ۔ یہ افواہ اور جھوٹی خبر دراصل یہودیوں کی طرف سے آپ کی مخالفت میں آپ کے بیمار ہونے کی خوشی میں پھیلائی گئی تھی اور مٹھائیاں تقسیم کی گئی تھیں۔ ذیل میں اس باطل نظرئیے کی تردید میں اکابر علماء کے فتاویٰ اور دیگر عبارات پیش کی جاتیں ہیں جن سے اس رسمِ بد اور غلط روش کی اور صفر کے آخری بدھ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شفایاب ہونے یا بیمار ہونے کی اچھی طرح وضاحت ہو جاتی ہے۔
حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب رحمہ اللہ امداد المفتین میں ایک سوال کے جواب میں صفَر کے آخری بدھ کے روزے کی شرعی حیثیت واضح کرتے ہیں۔
سوال: ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ بلادِ ہند میں مشہور بایں طور ہے کہ اس دن خصوصیت سے نفلی روزہ رکھا جاتا ہے اور شام کو کچوری یا حلوہ پکا کر کھایا جاتا ہے،عوام اس کو کچوری روزہ یا پیر کا روزہ کہتے ہیں، شرعاً اس کی کوئی اصل ہے یا نہیں؟۔
جواب:بالکل غلط اور بے اصل ہے۔ اس (روزہ)کو خاص طور سے رکھنا اور ثواب کا عقیدہ رکھنا بدعت اور ناجائز ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم سے کسی ایک ضعیف حدیث میں (بھی) اس کا ثبوت بالالتزام مروی نہیں اور یہی دلیل ہے اس کے بطلان و فساد اور بدعت ہونے کی۔ کیونکہ کوئی عبادت ایسی نہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو تعلیم کرنے سے بخل کیا ہو۔(امداد المفتین، ص:416)۔
اس دن میں روزہ رکھنے کی طرح ایک نماز بھی ادا کی جاتی ہے، جس کی ادائیگی کا ایک مخصوص طریقہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ماہِ صفر کے آخری بدھ دو رکعت نماز چاشت کے وقت اس طرح ادا کی جائے کہ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعدقُل اللّٰھُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِدو آیتیں پڑھیں اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعدقُل ادْعُوا اللّٰہَ أوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَدوآیتیں پڑھیں اور سلام پھیرنے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں اور دعا کریں۔
اس طریقہء نماز کی تخریج کے بعدحضرت علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس قسم کی مخصوص طریقوں سے ادا کی جانے والی نمازوں کا حکم یہ ہے کہ اگر اس مخصوص طریقہ کی شریعت میں مخالفت موجود ہو تو کسی کے لیے ان منقول طریقوں کے مطابق نمازادا کرنا جائز نہیں ہے اور یہ مخصوص طریقے والی نماز شریعت سے متصادم نہ ہو تو پھر ان طریقوں سے نماز ادا کرنا مخصوص شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے جائز ہے، ورنہ جائز نہیں۔
ماہِ صفر المظفرکو منحوس سمجھنا خلافِ اسلام عقیدہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ اس ماہِ مبارک میں نہ تو آسمان سے بلائیں اترتی ہیں اور نہ اس کے آخری بدھ کو اوپر جاتی ہیں اور نہ ہی امامُ الانبیاء جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دن مرض سے شفا یابی ہوئی تھی،بلکہ مورخین نے لکھا ہے کہ صفر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تھے۔ مفتی عبدالرحیم فرماتے ہیں: مسلمانوں کے لیے آخری چہار شنبہ کے طور پر خوشی کا دن منانا جائز نہیں۔شمس التواریخ وغیرہ میں ہے کہ دو شنبہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو رومیوں سے جہاد کرنے کا حکم دیا اور سہ شنبہ کو اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ امیرِلشکر مقرر کیے گئے، چہار شنبہ کو اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوچکے تھے لیکن اپنے ہاتھ سے نشان تیار کر کے اُسامہ کو دیا تھا۔ ابھی (لشکر کے)کوچ کی نوبت نہیں آئی تھی کہ آخر چہار شنبہ اور پنج شنبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت خوفناک ہوگئی اور ایک تہلکہ سا مچ گیا۔ اسی دن عشاء سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے پر مقرر فرمایا۔ (شمس التواریخ:2/1008)۔
اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ چہار شنبہ (بدھ)کے روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں زیادتی ہوئی تھی اور یہ دن ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ تھا۔ یہ دن مسلمانوں کے لیے تو خوشی کا ہے ہی نہیں، البتہ یہود وغیرہ کے لیے شادمانی کا دن ہو سکتا ہے۔ اس روز کو تہوار کا دن ٹھہرانا، خوشیاں منانا، مدارس وغیرہ میں تعظیم کرنا، یہ تمام باتیں خلافِ شرع اور ناجائز ہیں۔(فتاویٰ حقانیہ،کتاب البدعۃ والرسوم :2/84)۔
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ اپنی تالیف سیرت المصطفیٰ میں لکھتے ہیں کہ:’’ ماہِ صفر کے اخیر عشرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار شب کو اُٹھے اور اپنے غلام ابو مویہبہ کو جگایا اور فرمایا کہ مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ اہلِ بقیع کے لیے استغفار کروں۔ وہاں سے واپس تشریف لائے تو دفعۃً مزاج ناساز ہو گیا، سر درد اور بخار کی شکایت پیدا ہو گئی۔یہ ام الموئمنین میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کی باری کا دن تھا اور بدھ کا روز تھا۔(سیرت المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ، علالت کی ابتداء :3/156)۔
سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ آدھی رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع میں جو عام مسلمانوں کا قبرستان تھا، تشریف لے گئے۔ وہاں سے واپس تشریف لائے تو مزاج ناساز ہوا، یہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی باری کا دن تھا اور روز چہار شنبہ تھا ۔(سیرۃ النبی:2/115)۔
سیرۃ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ چہار شنبہ کی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان بقیعِ غرقد میں تشریف لے جا کر اہلِ قبور کے لیے دعا ءِ مغفرت کی اور فرمایا:’’اے اہلِ مقابرتمہیں اپنا حال اور قبروں کا قیام مبارک ہو ، کیونکہ اب دنیا میں تاریک فتنے ٹوٹ پڑے ہیں‘‘۔وہاں سے تشریف لائے تو سر میں درد تھا اور پھر بخار ہو گیا اور بخار صحیح روایات کے مطابق تیرہ روز تک متواتر رہا اور اسی حالت میں وفات ہوگئی۔ (سیرت خاتم الانبیاء ، ص:126)۔
اوپر ذکر کردہ تفصیل کے مطابق مَنْ بَشَّرَنِیْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّۃ والی روایت ثابت نہیں ہے بلکہ موضوع اور من گھڑت ہے۔ اس کو بیان کرنا اور اس کے مطابق ا پنا ذہن و عقیدہ رکھنا جائز نہیں۔ نیزماہِ صفر کے آخری بدھ کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیماری سے شفاء ملنے والی بات بھی جھوٹی اور دشمنانِ اسلام یہودیوں کی پھیلائی ہوئی ہے۔ اس دن تو معتبر روایات کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی ابتداء ہوئی تھی نہ کہ شفاء کی۔ لہٰذا ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم خود بھی اس طرح کے توہمات و منکرات سے بچیں اور دوسروں کو بھی اس طرح کی خرافات سے بچانے کی کوشش کریں۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress Blog