قسط چہارم مصنف نرجس بتول علوی
اصل بات یہ ہے کہ میں اپنے کاروبار کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں تب گھر لیٹ آتا ہوں اور کالج بھی نہیں آ رہا اچھا بابا ٹھیک ہے توسچ کہ رہا ہو گا چل مان لیا ایسا کر تیار ہو جا تیری طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے باہر جاتے ہیں تیرے لیے بھی فائدہ ہے کچھ ہلا گھلا کریں گئے چل یہ بھی ٹھیک ہے بی اے اور ارشد دونوں ایک ساتھ موٹر سائیکل پر گھر سے باہر آتے ہیں یہ دونوں ایک پارک میں آتے ہیں، بی اے اس پارک میں چکر لگا رہا ہے تو اچانک اس کی نظر وفا پر پڑتی ہے جو کہ اپنی شوٹنگ میں مصروف ہے بی اے کی نظر جب وفا پر پڑتی ہے تو بی اے کی جان میں جان آ جاتی ہے اوریہ دور سے اس کی شوٹنگ دیکھ رہا ہے اورڈائر یکٹر وفا کو سمجھا رہا ہے وفا اپنا سر ہلا کر اپنی سمجھ جانے کا اظہار کر رہی ہے اب ڈارئریکٹر کہتاہے کہ اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی ڈائر یکٹر کیمرہ مین سے ذرا کیمرہ رائٹ سائڈ پررکھو جی سر وفا اور عدنان اک دوسرے کے ہاتھوں میں ھاتھ لیے کھڑے ہیں جب وفا کے ھاتھ عدنان کے ہاتھوں میں دیکھتا ہے تو یہ منظر بی اے کے دل پر کانٹوں کی طرح چبھنے لگتا ہے ڈائریکٹر لائٹکمیرہ ایکشن کرتا ہے وفا اپنے ڈائیلاگ بولتی ہے عدنان سچ تو یہ ہے کہ میں نے جب سے آپ کو دیکھا ہے میری رات کی نیند میرے دل کا چین ڈائریکٹر کٹ کٹ وفا سے آپ اکسپریشن کیوں نہیں دے رہی آپ کو کہا تو تھا کہ پہلے پلکیں جھوکا کر عدنان کی بات کے ساتھ ساتھ آرام سے پلکیں اٹھاتی ہے لیکن آپ تو بلکل بھی پلکیں نہیں اٹھارہی آخر کیا بات ہے آخری کوشش کر کے دیکھ لیں اس کے بعد میں نہیں سنوں گا ڈراکٹر پھر اسی ترتیب سے سین کرواتا ہے لیکن وفا اسے ویسا پرفوم نہیں کر پاتی ڈارئریکٹر سین کٹ کرواتا ہے ڈارئریکٹر وفا کو کافی سناتا ہے پاس ہی موجود جونیر اداکارہ نمرہ ڈارئریکٹر سے سر اگر آپ کہیں تو میں یہ سین کروں ڈارئریکٹر ارے نمرہ آپ یہ سین کیسے کر ونگی جبکہ یہ سین تو وفا بھی نہیں کر سکی نمرہ ڈارئریکٹر کا کالر درست کرتے ہوئینگاہوں سے پیار کا ڈھونگ رچاتے ہوئے اگر میں یہ کر دوں تو وفا کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے پھر وفا کی جگہ مجھے اور میرے والی جگہ وفا کو مل جائیگی وفا معصومیت سے سر لیکن مرکزی کردار تو میرا ہے ڈارئریکٹر نمرہ کی انگلیاں دباتے ہوئے ہم ٹیلٹ نہیں حسن بھی دیکھتے ہیں وفا پر یہ باتیں سنگ باری کر رہے تھی اس کا وجود لرز سا گیا وہ یہ سن کر سکتے کی کفیت میں بے حس وحرکت کھڑی ہے تھی دماغ میں تیز سنسناہٹ ہو رہی تھی اور اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکل سکا تھا جیسے کسی نے اس کی قوت گویاسلب کر لی ہو اس کا چہرہ ذرد ہو رہا اس نے شدت کرب سے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں تلے چبا ڈالا اس کا چہرہ شدت جزبات سے تپ رہا تھا اور اس کی آنکھیں صنبط گریہ سے دہکتے ہوا انگار بنی ہوئی تھیں ڈارئریکٹر کے الفاظ اس کے وجود پر پر ایسے لگ رہے تھے جیسے تیروں کی بوچھار اور اس کی آنکھوں سے آ نسوں ٹپک رہے تھے جیسے ساون کی بارش برس رہی ہو بی اے دور بیٹھ کر یہ سب حالات دیکھ رہا تھا اور غصے سے دانت پسی جارہا تھا وفا کے آنسوں جیسے وفا کے رخساروں پر نہیں بلکہ بی اے کے دل پر جا گرے ہوں بی اے سے وفا کی یہ حالت برداشت نہیں ہوتی اور یہ اپنی جگہ سے اٹھ کر وفا کی طرف چلتا ہے وفا جوکہ وہاں اپنے آپ کو بے سہارہ محسوس کر رہی تھی بی اے اس کو اپنی باہوں میں تھام لیتا ہے وفا کو یہ اجنبی باہیں آج اپنی اپنی محسوس ہونے لگیں وفا بی اے سے لپٹ کر بلک بلک کر روتی ہے بی اے اس کے سارے آنسوں اپنے ہاتھوں میں سمیٹ لیتا ہے اور بی اے وفا سے میرے ہوتے ہوے آپ کو کوئی نہیں رولا سکتا، اب بی اے سوچ میں گم ہوجاتا ہے وفا پوچھتی ہے کیا ہوا بی اے کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا کہ میں اپنی پروڈیکشن بناؤں گا بی اے پروڈیکشن جس میں پہلی فلم ہوگی ،تیرے بن کیا جینا،اس کی ڈائریکشن بھی میں خود دونگا وفا سن کر ہکے بکے رہ جاتی ہے ۔(جاری ہے)