تحریر۔۔۔ میر افسرامان
بانیِ پاکستان نے کشمیر کے محل وقوع اور ہندوستان کی تقسیم کی اسکیم کو سامنے رکھتے ہوئے ،کشمیر کو پاکستان کی شہ رَگ قرار دیا تھا۔اس بیان میں یہ حکمت بھی پوشیدہ تھی کہ پاکستانی قوم اور حکمران کبھی بھی کشمیر سے غافل نہ ہوں۔ اسے پاکستان کے ساتھ ملانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں کیونکہ یہ ان کی حیات کا مسئلہ ہے۔انسانی زندگی کا انحصار پانی پر ہے اور پانی کشمیر سے بہہ کرپاکستان میں آتا ہے۔کشمیرعلاقائی، اخلاقی،مذہبی، ثقافتی، تمدنی ،معاشرتی اور ہندوؤں اور مسلمانوں میں منظور شدہ تقسیمِ ہندکے فارمولے کے تحت بھی پاکستان کا حصہ ہے۔ قائد اعظمؒ کو یہ بھی معلوم تھا کہ انگریز ریڈ کلف ایوراڈ نے ہندوؤں کے ساتھ رواداری اور لڑاؤ اور حکومت کرو کی دائمی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کی اکثریت والے گرداس پور ضلع کو بھارت کے ساتھ ملا دیا۔اس اسکیم میں اپنے پرَوَردَہ قادیانیوں کو بھی شامل کر لیا۔ قادیانیوں کے لیڈر سر ظفراللہ خان نے ریڈ کلف کو ایک سازش کے تحت قائل کر لیا ۔ وہ اس طرح کہ تقسیم کے وقت گرداس پور میں ہنددؤں کی آبادی۹ ۴ پرسنٹ دی۔ مسلمانوں کی آبادی۱ ۵ پرسنٹ تھی اور قادیانوں کی۲پرسنٹ آبادی تھی۔قادیانیوں نے اپنے جعلی نبی کی تحریریں ریڈ کلف کو دیکھائیں جس میں اُس نے اپنے نئے مذہب میں اپنے آپ کو مسلمانوں سے ایک علیحدہ قادیانی مذہب قراردیاہے۔ اس طرح ۲ پرسنٹ قادیانیوں کو ۴۹ پر سنٹ ہندوؤ ں کے ساتھ شامل کر کے ہنددؤں کا تناسب ۵۱ پرسنٹ کر لیا گیا۔ اور اس جعلی اکثریت کے بہانے پر ریڈ کلف نے گرداس پور کو بھارت کے ساتھ شامل کر دیا۔ کشمیر جانے کا واحد زمینی راستہ درہ دانیال بھارت کو دے دیا ۔ اس سے بھارت کو کشمیر میں داخل ہو کر قبضہ برقرار رکھنے میں موقعہ فراہم کر دیا۔ہندوستان کی تقسیم کے فوراً بعد کشمیریوں کی نمایدہ جماعت ،مسلم کانفرنس نے پاکستان کے ساتھ ملنے قرارداد پاس کی تھی۔ اس کے بعد کشمیر کے بھگوڑے راجہ نے بھارت کے ساتھ شریک ہونے کی جعلی قراداد پاس کی ۔اب تو راجہ کے بیٹے نے بھی اس قرارداد کو جعلی قرار دے دیا ہے۔ بھارت نے اس قراراداد کو بہانہ بنا کر کشمیر پر ناجائز قبضہ کے لیے اپنی فوجیں اُتار دیں۔ قائداعظم ؒ نے اُس وقت کے پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف جرنل گریسی کو کشمیر میں فوجیں بھیجنے کا حکم دیا۔ جرنل گریسی نے قائدؒ کا حکم ماننے سے انکارکیا۔ اسی دوران پونچھ کے ریٹائرڈ مسلمان فوجیوں نے بھارت کی فوج کو کشمیر سے نکالنے کے لیے جہاد کا اعلان کر دیا۔ ان جہاد میں پاکستان کے بہادر سرحدی قبائل بھی شریک ہو گئے۔اُدھر گلگت بلتستان کے مسلمان مجاہدین نے بھگوڑے راجہ کی فوجوں کو شکست دے کر اپنے علاقے سے نکال دیا۔پونچھ کے مجاہدین ا ور پاکستان کے قبائلیوں نے آزادجموں و کشمیر کاتین میل چوڑا اور تیس میل لمبا موجودہ علاقہ بھارت سے واپس لے لیا۔ مجاہدین کشمیر سری نگر کے قریب پہنچنے والے تھے کہ بھارت کے لیڈر نہرو اپنے دانشور ،کوٹلیہ چانکیہ کی منافقت بھری پالیسی پر عمل کرتے ہوئے جنگ بندی کی درخواست لیے اقوام متحدہ پہنچ گئے۔ اقوام متحدہ کے سامنے وعدہ کیا کہ کشمیر میں حالات پرامن ہوتے ہی ہندوستان کی تقسیم کے فارمولے کے تحت کشمیریوں کو حق استصواب رائے کا حق دیا جائے گا کہ کشمیری ا پنی آزاد رائے سے فیصلہ کریں گے کہ وہ بھارت یا پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔وہ دن اور یہ دن کہ بھارت دنیا کے سامنے کیے، اپنے وعدے سے اعلانیہ مکر گیا۔ اقوام متحدہ نے وقتاً فوقتاً کشمیر پر قراردادیں بھی پاس کی۔ جو اب بھی اس کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔اقوام متحدہ نے ایل او سی پر اپنے مبصر بھی تعینات کئے ہوئے ہیں۔مگر مغرب کی لونڈی اقوام متحدہ مسلم دشمنی میں اس پر عمل درآمند نہیں کروا رہی۔انڈونیشیا اور سوڈان میں عیسائی اقلیتیوں کو فوراً ریفرنڈیم کروا کے آزادی دِلا دی۔ مگر کشمیر اور فلسطین میں جانب داری برت رہی ہے۔ نہ جانے ۵۷ ؍اسلامی ملکوں کے مسلم حکمرانوں اور مسلم امہ کو اللہ کا یہ سبق کب یاد آئے گاکہ یہود و نصارا تمھارے دوست نہیں ہو سکتے جب تک تم ان جیسے نہ بن جائے۔ صاحبو!جب تک مسلمان اپنی لیڈر شپ خود پیدا نہیں کریں گے مغرب ان کے مسائل کبھی بھی حل نہیں کرے گا۔مسلمانوں کو اپنی’’ لیگ آف مسلم نیشن‘‘ بنانی چاہیے۔ جہاں تک کشمیر کا مسئلہ ہے ،بھارت تو شروع دن سے کشمیر پر ہر طرح سے قبضہ بر قرار رکھنے کے لیے اقدامات پر اقدامات کرتا گیا۔ دوسری طرف بانیِ پاکستان قائد اعظمؒ کی پالیسی سے پاکستان کے حکمران پیچھے ہٹتے گئے۔ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے جہاں تک کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہٹ کر بھی کشمیر کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اِن نادان حکمرانوں کو اس بات کا ادراک نہیں کہ بھارت نے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ یہ تو قائد ؒ کی برصغیر کے مسلمانوں کی نمایندگی کرتے ہوئے دو قومی نظریہ کی زور دارتحریک تھی جس کو ہندوؤں اورانگریزوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی نیم دلی سے منظور کیا تھا۔ہندو لیڈروں نے تو اُسی وقت ہی کہہ دیا تھا کہ جوں جوں دو قومی نظریہ کمزرو پڑھے گا۔ ہم پاکستان کو واپس بھارت میں ملا کر اَکھنڈ بھارت بنا لیں گے۔ اُسی ڈاکٹرائن پر عمل کرتے ہوئے بھارت نے بنگالی مسلمانوں کو قومیت کے زہر میں مبتلا کر کے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے۔ اوراب اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ہندو انتہا پسند دہشت گرد مودی کہتا ہے کہ مجھے گلگت اوربلوچستان سے مدد کے لیے فون کال آ رہی ہیں۔بھارت پاکستان اور
خصوصی طور پر بلوچستان میں کھل کر دہشتگردی پھیلا رہا ہے۔اپنے ڈاکڑائن پر عمل کر کے افغانستان اور کسی حد تک ایران کو بھی ساتھ ملا لیا ہے۔کشمیر سے پاکستان کی طرف بہہ کر آنے والے دریاؤں پر لا تعداد بند بنا بنا کر پاکستان کا پانی روک لیا ہے۔ اس پانی کو اپنے علاقوں کی طرف موڑ رہا ہے۔ جب چاہے اس جمع شدہ پانی کو چھوڑ کر سیلاب اور روک کر پاکستان میں قحط کی سی کیفیت پیدا کر دے گا۔اب تودریائے سندھ پر کارگل کے مقام پرسرنگ لگا کر اس کے پانی کو اپنی طرف موڑ رہا ہے۔ اورپاکستان ہے کہ سندھ تاس معاہدے کی مناسب طور پر رکھوالی بھی نہیں کر سکتا۔ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے کارگل کی جنگ چھیڑ کر بھارت کے سیاچین پر متعین۳۳ ہزار فوج کی سپلائی لین پر قبضہ کرلینا کا پروگرام تھا۔ہم دنیاکو کہہ سکتے تھے کی بھارت نے شملہ معاہدے کے بعد سیا چین پر ناجائز قبضہ کیاہوا ہے اس لیے ہم بھی حق بجانب ہیں۔ ہم نے اپنا علاقہ واپس لے رہے ہیں۔مگر ناہل وزیر اعظم نے امریکا سے ہاتھ جوڑ کر پسپائی اختیار کی۔ پاکستانی فوج اور مجاہدین کو نا حق بھارت کے رحم کرم پرچھوڑ دیا۔بھارتی فوجیوں نے انہیں چوٹیوں سے اُترتے ہوئے چن چن کر ہلاک کر دیا۔ شاید ان ہی شہید نیک روحوں کی سزا ملی اور پاکستان کی اعلیٰ عدالت نے اس کو کرپشن کے الزام میں نا اہل قرار دے دیا۔ دوسری طرف بے نظیر صاحبہ نے سکھ حریت پسندوں کی لسٹیں دے کر بھارت پر پرشیئر کم کیا۔ راجیو کے پاکستان کے دورے پر کشمیر کے بورڈ راستے سے ہٹا دیے۔کیا اس کی وجہ یہ نہیں ہو سکتی ہے کہ پاکستان میں الیکشن کے موقعے پر بھارت پاکستان میں دو قومی نظریہ کو کمزور کرنے کے لیے پاکستان کی سیکولر جماعتوں کی خفیہ طریقے سے اندر ہی اندرفنڈنگ کر تا رہا ہے۔اگر یہ وجہ نہیں تو کیوں سکھوں کی لسٹیں دیں گئیں؟ کیوں کشمیر کے بورڈ راستے سے ہٹائے گئے؟ دوسرے طرف نا اہل وزیر اعظم کھلم کھلا دو قومی نظریہ کی مخالفت کر کے لاہور میں۱۳؍ اگست ۲۰۱۱ء میں فرماتے ہیں’’ہم ہندو مسلمان ایک ہی قوم ہیں۔ ہمارا ایک ہی کلچرہے۔ ایک ہی ثقافت ہے۔ہم کھانا بھی ایک جیسا کھاتے ہیں۔صرف درمیان میں ایک سرحد کی لکیر ہے۔ جب کہ بانیِ پاکستان قائد اعظم ؒ نے دو قومی نظریہ پر پاکستان حاصل کیا تھا قائد اعظم ؒ نے۲۳؍ مارچ ۱۹۴۰ء لاہور میں ہی میں فرمایاتھا’’ہم مسلمان ہندوؤں سے علیحدہ قوم ہیں۔ہمارا کلچر، ہماری ثقافت،ہماری تاریخ،ہمارا کھانا پینا اورہمارا معاشرہ سب کچھ ان سے یکسر مختلف ہے‘‘ کیا نا اہل وزیر اعظم نے بھی دو قومی نظریہ کی مخالفت کر بھارت سے کچھ حاصل کیا ہے؟ اس خیال کو تقویت اس وقت پہنچتی ہے جب بھارت کے پاکستان مخالف بیانات پر نا اہل وزیر اعظم کی زبان گونگی ہو گئی ۔ کل بھوشن یادیو بھارت حاضر فوجی ملازم جاسوس کی گرفتاری پر آج تک ایک بیان بھی نہیں دیا۔ دوستی نباتے ہوئے بغیر ملکی قواعد کے، پاکستان کے دشمن، ہندوانتہا پسند دہشت گرد موددی اور بھارتی سیکورٹی کے مشیر اجیت ددول کو لاؤ لشکر کے ساتھ اپنی سال گرا اور نواسی کی شادی پر اپنے گھر ،رائے ونڈ لاہور بلایا۔اپنے ذاتی دوست اسٹیل ٹائیکون جندل ،جو کہ پاکستان کے خلاف زہر اُگلتا رہتا ہے، کو مری بلا کر کیا کچھ وعدہ کیا۔ کیا اس ملاقات کی وجہ سے کلبھوشن پر حولی ہاتھ رکھا۔پاکستان کی زندگی اورموت کے مسئلہ کشمیرکو ایک طرف رکھ کر بھارت سے آلو پیاز کی تجارت کو فوقیت دی۔
صاحبو!کیا کیا بیان کیا جائے۔ دکھوں کی ماری کشمیری قوم جو اپنا آج، پاکستان کے کل کے لیے قربان کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ پاکستان کے حکمرانوں کا ایسا رویہ رہا ہے۔ بھارت نے توکشمیریوں کو ہر حربہ استعمال کر پاکستان سے ملنے سے روکنے کی کوشش کی۔ مگرقربان جاؤں حریت کانفرنس کے ۸۰ سالہ بوڑھے لیڈر، سید علی گیلانی کہ جس نے بھارت کو للکار کر تاریخی بیان دے کہا کہ’’ اے بھارت تم کشمیر کی سڑکوں پر تار کول کے بجائے سونا بھی بچھا دے تب بھی ہم تمھاری بات نہیں مانیں گے‘‘۔ ہم تم سے آزادی حاصل کر کے پاکستان کے ساتھ شامل ہونگے انشاء اللہ۔ اس ہی اعلان کے بعد کشمیری روزانہ مظاہروں کے درمیان پاکستانی سبز ہلالی جھنڈے لہراتے رہتے ہیں ۔ بھارت کے ترنگے جھنڈے کو جلاتے ہیں۔ پاکستان کے یوم آزدی کو پاکستان کے ساتھ مناتے ہیں اور بھارت کے یوم آزادی کے دن سیاہ جھنڈے لہرا کر ہڑتال کرتے ہیں۔کشمیریوں کے اس عمل سے بھارت نے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ ٹوڑ دیے۔ ان کے کھیت کھلیان اور پھلوں کے باغات اور پراپرٹیوں جس میں مکان ، دوکانیں اور کاروبار شامل ہے،پر گن پاؤڈر چھڑک کرخاکستر کر دیا۔ ہزاروں کو جعلی مقابلوں کے ذریعے شہید کر کے اجتمائی قبروں میں دفنا دیا۔ ان کے ہزاروں نوجوانوں کو قید میں بند کر دیا۔ ہزاروں کو قید کے دوران آپائج کر دیااور ہزاروں کو گم کر دیا جس سے کشمیر کی سیکڑوں عورتیں نیم بیوہ ہو گئیں۔ کشمیر کی ہزاروں مائیں، بہنیں،بیویاں اور بہنیں کی آنکھیں اپنے مردوں کی رہیں تکتے تکتے خشک ہو گئیں۔ ہزاروں عزت مآب خواتین کے ساتھ ان کے سفاک فوجیوں نے اجتمائی آبرو ریزی کی۔ اب توان کی خواتیں کی چوٹیاں کا ٹ کر فرعونی ذہنیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کے بے بس نہتے مظاہرین پر بیلٹ گنیں چلا کر اس کے سیکڑوں نوجوانوں کو اندھا کر دیا ہے۔ نام نہاد سیکولرزم کا دعویٰ کرنے والے بھارت کے سفاک حکمرانوں کے حکم پر ان کی آٹھ لاکھ فوج کشمیری مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں دخل دے ان کو جمعہ کی نماز تک نہیں ادا کرنے دیتے۔ اس کی عقیدت کے منبع زیارتوں کو گن پاؤ ڈر چھڑک کر جلا دیا۔مقبوضہ کشمیر میں محاصرے ، کریک ڈاؤن اور چھڑپیں روز کا محمول بن چکی ہیں۔سخت سردی کے دوران شناختی پریڈ نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔کشمیری خواتین کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔نہ جانے انسانیت کا ضمیر ان مظالم پر کب جاگے گا۔ اُدھربھارت کی گیدڑ بھبکیوں کہ وہ آزاد پاکستان کے زیر اہتمام آزادکشمیر پر بھی قبضہ کر لے گا۔اب تو ان کے چمچے فاروق عبداللہ تک بھی بول اُٹھے ہیں کہ آزاد کشمیر
پاکستان کا حصہ ہے ۔پاکستان کسی طور پر بھی بھارت کو اس پر قبضہ نہیں کرنے دے گا۔ کشمیر ایک آزاد ریاست کے طور پر نہیں رہ سکتی۔ اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ جموں و کشمیرکو پاکستان میں ہی شامل ہونا چاہیے۔ بھارت کے کچھ انصاف پسند دانشور،بھارت کے حکمرانوں سے کہہ رہے ہیں کہ کشمیر میں مظالم کی وجہ سے کشمیر بھارت کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ کہ مقبوضہ کشمیر میںآئے دن بھارت مخالف اور آزادی کے حق میں احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں۔ آغا حسن الموسوی کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ روزانہ کی بنیاد بھارتی سفاک فوجی کشمیریوں کو شہید کر رہے ہیں۔ دو دن پہلے گھر گھرتالشی کے دوران چھ کشمیریوں کو شہید کر دیاگیا۔لوگوں نے فوجی محاصرہ توڑ کر احتجاج کیا اور ہڑتال کی۔ پلومہ میں کریک ڈاؤن کی کوشش کشمیریوں نے ناکام بنا دی۔جھڑپوں میں پانچ افراد زخمی ہوئے۔وادی میں بھارت مظالم کے خلاف احتجاج ہوا۔ کئی مقامات پر عوام نے فوجیوں پر پتھراؤ کیا۔کشمیر میں جاری تحریک تکمیلِ پاکستان کو دنیا کی نظروں سے اوجل کرنے کی بھارتی حکمرانوں کی پالیسی ہے کہ ایل او سی پر اشتعال پیدا کیا جائے۔چڑی کوٹ اور نیزہ پیرسیکٹر میں بھارتی فوجیوں نے بے اشتعال فائرنگ کی۔ اس سے ۷۵ سالہ خاتون شہید ہو گئی۔ پاکستان کے فوجیوں نے بھارت کی فوجی چوکیوں پر فائرنگ کر کے ان کو تباہ کر دیا۔وفاقی وزیر برائے امور آزاد کشمیر، گلگت وبلتستان برجیس طاہر صاحب نے کہا ہے کہ بھارتی فوج حسب معمول معصوم کشمیری نوجوانون کو نام نہاد جعلی مقابلوں میں شہید کر رہی ہے۔
صاحبو!پاکستان کے بزدل حکمران کشمیریوں سے اور کتنی قربانیاں چاہتے ہیں۔کیا سال میں صرف ایک یوم کشمیر منا کر کشمیر کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے؟کیا پاکستان نے بیرون دنیا اپنے سفارت خانوں میں کشمیر کا مسئلہ اقوام عالم کے سامنے اُٹھانے کے لیے کشمیر بینچ قائم کیے ہیں؟ کیا عوام کا مطالبہ مانتے ہوئے کشمیر کمیٹی میں کوئی فعال شخص کو لگایا ہے؟ ایک بات پاکستان کی عوام اور حکمرانوں کو پلے باندھ لینی چاہیے کہ بھارت پاکستان کو ختم کر کے ہی دم لینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اب تو بھارت میں ہندو انتہا پسند دہشت گرد موددی ہندواتا یعنی بھارت کو ایک کٹڑ ہندو مذہبی ریاست بنانے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ یہ تنظیم ہنددؤ ں کی دہشت گرد تنظیم راشٹریہ سیونگ سنگھ( ایس ایس آر) کا بنیادی رکن ہے ۔ پُر تشدد تنظیم پر انگریزوں نے بھی اپنے دور میں پابندی لگائی تھی۔بھارت کے پاکستان توڑنے کے منصوبے کو ناکام کرنے اور پاکستان بچانے کا ایک ہی فارمولہ ہے۔پاکستان میں فوراً قائد اعظم ؒ کے وژن کے مطابق اسلامی نظام حکومت قائم کر دینا چاہیے۔ اس سے بکھری ہوئی پاکستانی قوم یک سو ہو جائے گی۔ حکومت کسی بھی سیاسی پارٹی کی ہو۔عوام اُس کی زورِ بازو بن جائیں گے۔اورجب ہمارے حکمران، تحریک پاکستان کے دوران اللہ سے کیے ہوئے وعدہ پورا کرے گی ۔تو اللہ آسمان سے رزق نازل کرے گا۔ زمین اپنے خزانے اُگل دے گی۔ پاکستان کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ تحریک تکمیل پاکستان پوری ہو جائے گی۔کشمیر پاکستان سے مل جائے گا۔اورکشمیر پاکستان کی شہ رگ بھارت کے خودکش حملوں سے محفوظ ہو جائے گی۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو آمین۔