چور بازاری

Published on November 30, 2017 by    ·(TOTAL VIEWS 634)      No Comments

تحریر ۔۔۔ راشد علی راشد اعوان
لندن کا مشہور رائل البرٹ ہال تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سب کی نظریں پردے پر گڑی ہوئی تھیں۔ ہر ایک آنکھ اپنے پسندیدہ سٹینڈ اپ کامیڈین کی ایک جھلک دیکھنے کو بے قرار تھی۔ چند ہی لمحوں بعد پردہ اٹھا اور اندھیرے میں ایک روشن چہرہ جگمگایا جس کو دیکھ کر تماشائی اپنی سیٹوں سے کھڑے ہو گئے اور تالیاں کی گونج میں اپنے پسندیدہ کامیڈین کا استقبال کیا۔یہ گورا چٹا آدمی مشہور امریکی سٹینڈ اپ کامیڈین ایمو فلپس تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر اپنے چاہنے والوں کا شکریہ ادا کیا اور بڑی ہی گھمبیر آواز میں بولا”دوستو میرا بچپن بہت ہی کسمپرسی کی حالت میں گزرا تھا، مجھے بچپن سے ہی بائیکس کا بہت شوق تھا۔ میرا باپ کیتھولک تھا، وہ مجھے کہتا تھا کہ خدا سے مانگو وہ سب دیتا ہے۔ میں نے بھی خدا سے مانگنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی اور دن رات اپنے سپنوں کی بائیک کو خدا سے مانگنا شروع کر دیا۔ میں جب بڑا ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ میرا باپ اچھا آدمی تھا لیکن تھوڑا سا بے وقوف تھا، اس نے مذہب کو سیکھا تو تھا لیکن سمجھا نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں سمجھ گیا تھا”۔اتنا کہہ کر ایمو فلپس نے مائیکروفون اپنے منہ کے آگے سے ہٹا لیا اور ہال پر نظر ڈالی تو دور دور انسانوں کے سر ہی سر نظر آ رہے تھے لیکن ایسی پِن ڈراپ سائلنس تھی کہ اگر اس وقت سٹیج پر سوئی بھی گرتی تو شاید اس کی آواز کسی دھماکے سے کم نہ ہوتی۔ ہر شخص ایمو فلپس کی مکمل بات سننا چاہتا تھا کیونکہ وہ بلیک کامیڈی کا بادشاہ تھا، وہ مذاق ہی مذاق میں فلسفوں کی گھتیاں سلجھا دیتا تھا۔ ایمو نے مائیکروفون دوبارہ اپنے ہونٹوں کے قریب کیا، اور بولا”میں بائیک کی دعائیں مانگتا مانگتا بڑا ہو گیا لیکن بائیک نہ ملی، ایک دن میں نے اپنی پسندیدہ بائیک چرا لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بائیک چرا کر گھر لے آیا اور اس رات میں نے ساری رات خدا سے گڑ گڑا کر معافی مانگی اور اگلے دن معافی کے بعد میرا ضمیر ہلکا ہو چکا تھا اور مجھے میری پسندیدہ بائیک مل چکی تھی اور میں جان گیا تھا کہ مذہب کو کیسے استعمال کیا جاتا ہے”۔اتنا کہہ کر جیسے ہی ایمو فلپس خاموش ہوا تو پورا ہال قہقوں سے گونج اٹھا، ہر شخص ہنس ہنس کر بے حال ہو گیا اور کیا آپ جانتے ہیں اس لطیفے کو سٹینڈ اپ کامیڈی کی تاریخ کے سب سے مشہور لطیفے کا اعزاز حاصل ہے۔ اتنا کہہ چکنے کے بعد ایمو فلپس نے پھر سے مائیکروفون ہونٹوں کے قریب کیا اور بولا”اگر تم کبھی کسی مال دار شخص کو خدا سے معافی مانگتے دیکھو تو یاد رکھنا وہ مذہب سے زیادہ چوری پر یقین رکھتا ہے”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا کہہ کر ایمو فلپس پردے کے پیچھے غائب ہو گیا اور لاکھوں شائقین ہنستے ہنستے رو پڑے کیونکہ یہ ایسا جملہ تھا جس نے بہت سارے فلسفوں کی گھتیاں سلجھا دی تھیں۔مجھے یہ سارا قصہ کسی دوست نے سوشل میڈیا پر شئیر کیا تھا،اس آگے بھی بہت لمبی کہانی لکھی ہوئی تھی اور میں صرف یہیں تک ہی پڑھ پایا،اس کے بعد وہی کرپشن کہانی،الزامات اور اپنے لیڈر کو فرشتہ اور دوسروں کو چور چور کہا گیا تھا،میں بھی ایک لمحہ کیلئے رک گیا اور سوچنے لگا کہ کیا واقعی کسی بھی مالدار شخص کی معافی کا یہی مطلب لیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے کالے کرتوتوں کو سفید کرنے میں اپنے خدا سے معافی کا ڈرامہ رچاتا ہے؟؟؟میرے دماغ کی اس الجھی ڈور اور میرے کئی سوالوں کے جواب جناب جاوید چوہدری صاحب اپنی ایک تحریر میں کچھ یوں دیتے ہیں کہ چوروں کی دو قسمیں ہیں، عام چور اور سیاسی چور،عام چور آپ کا مال، آپ کا بٹوہ، آپ کی گھڑی اور آپ کا موبائل فون وغیرہ چھین لیتے ہیں۔ سیاسی چور آپ کا مستقبل، آپ کے خواب، آپ کا عمل، آپ کی تعلیم، آپ کی صحت، آپ کی مسکراہٹیں چھین لیتے ہیں۔ لیکن خیال رہے ان میں ایک عجیب و غریب بنیادی فرق ہوتا ہے۔ پہلا یہ کہ عام چور آپ کا انتخاب کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ سیاسی چوروں کا انتخاب آپ خود کرتے ہیں،سیاست میں بد تمیزی اور بد تہذیبی کو رنگ دینے والوں نے اس اکھاڑے کی رہی سہی کسر بھی ختم کر دی ہے،اپنے مفاد کی خاطر جنہیں الزام دیا جاتا ہے اگلے روز انہیں گلے لگا کر ان کے گناہ دھو دیے جاتے ہیں،ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے وہ حربے بھی آزمائے جاتے ہیں جن کا سیاست سے بھی کوئی لینا دینا نہیں ہوتا،ماسوائے بلیک میلنگ اور اپنی جھوٹی انا کے آگے پل باندھنے کے کوئی دوسرا مقصد نہیں ہوتا، کامیڈین ایمو فلپس کی زبان سے نکلنے والی حقیقت کو جاوید چوہدری صاحب جس سیاسی چور کی نشاندہی کرتے ہیں وہ واقعی ہمارا مستقبل،ہمارے خواب،ہماری تعلیم،ہماری صحت اور ہماری مسکراہٹیں چھین لیتے ہیں۔ عام چور ہمیں واقعی مالی طور پر نقصان سے دوچار کرتا ہے جبکہ سیاسی چور ہماری نسلوں کے خواب اور ان کا مستقبل چوری کر لیتے ہیں اور ہم پھر بھی ان چوروں کا کاندھا ہی دیتے ہیں،وقت اور حالات بدل کر جب یہی سیاسی چور کسی نئی سیاسی جماعت سے اپنا سر باہر نکالتے ہیں تو ہم ان کا ماضی اور ان کے کرتوت بھول جاتے ہیں،استحصالی طاقتیں کسطرح سوچتی ہیں اسکو سمجھنے کیلئے یہ واقعہ پڑھنا اور اسے سمجھنا بہت ضروری ہے، سابق سوویت یونین کے صدر جوزف سٹالن ایک مرتبہ اپنے ساتھ پارلیمنٹ میں ایک مرغا لے آیا اور سب کے سامنے اس کا ایک ایک پر نوچنے لگا، مرغا درد سے بلبلاتا رہا مگر ایک ایک کر کے سٹالن نے اس کے سارے پر اتار دئیے پھر مرغے کو فرش پر پھینک دیا اور جیب سے کچھ دانے نکال کر مرغے کی طرف پھینک دئیے اور چلنے لگا، مرغا دانا کھاتا ہوا سٹالن کے پیچھے چلنے لگا،سابق روسی صدرسٹالن برابر دانا پھینکتا جاتا اور مرغا دانا منہ میں ڈال کر اس کے پیچھے چلتا ہوا سٹالن کے پیچھے آ کر اس کے پیروں میں آکھڑا ہوا،سٹالن نے اپنے کامریڈز کی طرف دیکھا اور کہاغلام قوم اس مرغے کی طرح ہوتی ہے، وہاں پہلے قوم کا سب کچھ لوٹ کر انہیں اپاہج کر دیا جاتا ہے اور بعد میں معمولی سی خوراک دے کر خود کو ان کا مسیحا بنایا جاتا ہے اور چند سکوں، چند نوالوں کے عوض، معاشی غلام کا شکار اور اجتماعی شعور سے محروم قوم یہ بھول جاتی ہے کہ ان کو کس طرح چوپایوں کے درجے پر لا کھڑا کیا گیا ہے، ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کے درمیان نظریات کا فرق مٹتاجا رہا ہے اور اب وہ جس نظام کے پجاری ہیں وہ بظاہر ایک ناقابلِ حل بحران میں گھر چکاہے، اس نظام کے منصوبہ سازوں کے پاس اس بحران سے جنم لینے والے معاشی زوال سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں، در حقیقت انہوں نے اس معاشی تنزلی کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ وہ دن گئے جب معاشی ماہرین، معیشت کو ترقی کی راہ پر لانے اور غربت کے خاتمے اور سماجی ترقی کی کم از کم کوشش ضرور کیا کرتے تھے،تمام تر جنتر منتر کرنے کے باوجود بھی آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے تباہ کن نسخوں کو آنکھیں بند کر کے لاگو کرنے کے سواکوئی چارہ نہیں،گزشتہ دنوں فیض آباد چوک میں جو کچھ ہو اس کی کلی نہ صرف کھل گئی بلکہ ماضی کے دریچوں کا رخ بھی موڑ کر الجھی ڈور سلجھا دی گئی،ہماراسیاسی ڈھانچہ ان معاشی بنیادوں کا عکس ہے جہاں معاشی بنیادوں کے پر انتشار اور مہلک کردار کا نتیجہ بے قاعدگی سے با قاعدہ سیاسی ہیجانوں کی شکل میں سامنے آتا ہے جن میں زیادہ تر دائیں بازو کے نعرہ بازاور سماج کی پسماندہ پرتوں کے کچھ حصے وقتی طور پر متحرک ہونے کے بعد گمنامی میں کھو جاتے ہیں،ہر حکومت میں شامل اتحادی اور اپوزیشن ایک دوسرے پر بے سرو پا الزامات لگا کر موجودہ کیفیت کو برقرار رکھنے کی کوشش میں ہوتے ہیں تاکہ وہ جی بھر کر کمائی کر سکیں اور اس لوٹ مارکے نتیجے میں مجبور عوام پر لگنے والے زخموں سے بے پرواہ وہ بہت تیزی سے مال لوٹنے میں مصروف رہتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے معاشی نظام کے مستقبل پر کوئی بھروسہ نہیں ہوتا رہے ہم عوام کے نام پر مال منڈیوں کے ریوڑ تو ہمیں صرف ہانکا جاتا ہے اور ہانکتے ہانکتے70برس بیت گئے جنہوں نے منزلیں پانی تھی وہ اقتدار و اختیارات کے مزے لوٹ رہے ہیں اور مال منڈیوں کے ریوڑوں کو آج بھی ہانکا جا رہا ہے کہیں ڈی چوک میں اور کہیں فیض آباد پل پر اور کبھی مجھے کیوں نکالا کی گردان لگانے والوں کے آگے پیچھے،،،عقل سے عاری ریوڑ ہی ہوتا ہے اور ہم اسی ریوڑ ہی کا حصہ ہیں۔

Readers Comments (0)




Weboy

WordPress主题