تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
گزشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو متنازعہ ریاست اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا جائے گا۔ امریکی کانگریس نے 1995ء میں امریکی انتظامیہ کو تل ابیب سے سفارت خانے کی القدس منتقلی کا اختیار دیا تھا مگر سابق امریکی صدور قومی سلامتی کے تقاضوں کے پیش نظر اس فیصلے پر عمل درآمد موخر کرتے چلے آئے ہیں۔ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران اور صدر منتخب ہونے کے بعد متعدد بار اسرائلی حکام وعدہ کیا تھا کہ وہ اسرائیل میں قائم امریکی سفارت خانے کو القدس منتقل کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے یروشلم کو بطور اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے بیان کے بعد فلسطین سمیت تمام اسلامی ممالک میں سخت بے چینی اور اشتعال پایا جاتا ہے۔ ٹرمپ کے یک طرفہ اعلان کی دنیا کے تمام بڑے ملکوں برطانیہ، فرانس، روس، چین نے مخالفت کی ہے۔ اورعالمی لیڈروں نے ٹرمپ کے فیصلے کو غیر ذمے دارانہ اور اشتعال انگیز قرار دیا ہے۔ پوپ فرانسس نے ٹرمپ کے اعلان کو تاریخ کا غلط ترین اقدام قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کی دو ریاستیں قائم کرنے کے علاوہ اور کوئی حل نہیں ہے، امریکہ کے یک طرفہ اقدامات عالمی امن کو خطرے میں ڈال دینگے۔ حکومت پاکستان اور سیاسی لیڈروں نے ٹرمپ کے اعلان کی شدید مذمت کی ہے۔ جماعت اسلامی نے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ ترکی کے صدر اردگان عالم عرب کے ممتاز لیڈر بن کے ابھرے ہیں انہوں نے ٹرمپ کے فیصلے کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے اوآئی سی کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے۔ فلسطین کے لیڈروں نے ٹرمپ کے فیصلے کو اعلان جنگ قرار دیا ہے اور نئی انتفادہ کی دھمکی دی ہے۔
فلسطین کا شہر یروشلم مسلمان، یہودی اور مسیحی ، تینوں مذاہب کا مقدس ترین شہر ہے۔یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کا تعمیر کردہ معبد ہے جو بنی اسرائیل کے نبیوں کا قبلہ تھا اور اسی شہر سے ان کی تاریخ وابستہ ہے۔ یہی شہر مسیح کی پیدائش کا مقام ہے اور یہی ان کی تبلیغ کا مرکز تھا۔ مسلمان تبدیلی قبلہ سے قبل تک اسی کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے۔ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے لوط علیہ السلام نے عراق سے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔ 620ء میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جبریل امین کی رہنمائی میں مکہ سے بیت المقدس پہنچے اور پھر یہاں سے معراج آسمانی کے لیے تشریف لے گئے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے وحی الٰہی کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقصیٰ) کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس آباد ہوا۔ یہودی یروشلم کو اپنا تین ہزار سالہ پرانا دارلخلافہ تصور کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہودیوں کے آباو اجداد یہیں سے آئے تھے، جبکہ بیت المقدس میں تقریبا 9لاکھ فلسطینی آباد ہیں جو مشرقی بیت المقدس کو اپنی ریاست کا دارالخلافہ تصور کرتے ہیں۔ 1947ء میں اس علاقے پر قابض برطانیہ نے فلسطین کو تین علیحدہ ریاستوں میں تقسیم کیاتھا، اور ساتھ ہی یہ سفارش بھی تھی کہ چونکہ بیت المقدس تین الہامی مذاہب کا مقدس شہر ہے لہٰذا یہ شہر کسی ایک فریق کو دینے کے بجائے بین الاقوامی انتظام کے تحت رکھا جائے تا کہ ہر مذہب کے زائرین یہاں بلا رکاوٹ آ جا سکیں۔ اقوام متحدہ نے بھی یروشلم کو بین الاقوامی کنٹرول میں دینے کی سفارش کی تھی۔ مگر فلسطینیوں نے یہ پلان تسلیم نہیں کیا اور اپنے پورے علاقے کی آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔ 1948ء کی جنگ میں اسرائیل نے مغربی یروشلم پر قبضہ کر لیا جب کہ مشرقی یروشلم اردن کے کنٹرول میں رہا۔ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے عربوں کی متحدہ فوج کو شکست دے کر اردن سے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ مشرقی یروشلم کا علاقہ بھی چھین لیا۔ اسرائیل نے مشرقی یروشلم کو اپنا علاقہ قرار دیا تو 1967ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر اس کی مخالفت کی۔ جبکہ امریکہ نے 70 سال قبل اسرائیل کو تو ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا تھا مگر اسے اپنا سفارتخانہ بیت المقدس میں قائم کرنے کی آج تک ہمت نہیں ہو سکی کیونکہ عالم اسلام ہی نہیں‘ اقوام عالم کے بیشتر ممالک بھی بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ فلسطینی عوام برس ہا برس سے اپنی آزاد و خودمختار ریاست کیلئے جدوجہد کررہے ہیں اور اب تک لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں۔ دنیا میں پائیدار امن کے قیام کے لئے امریکی صدر کو بیت المقدس کے اسرائیلی دارلحکومت بنانے کے بیان سے واپس ہٹنا ہوگا ، کیونکہ ان کے بیان سے ہی اقوام عالم کے مسلمانوں میں سخت اشتعال اور غصہ پایا جاتا ہے ، عملی قدم سے یقیناًدنیا کا امن خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے ۔