تحریر۔۔۔ میر افسرامان
جدید دنیا کی حکومتوں کے آئینی دور میں پارلیمنٹ مقننہ یعنی قانون بنانا، حکومت ملکی معاملات چلانا،عدلیہ پارلیمنٹ کے فیصلوں کی جاچ پڑتال ، حکومت کے عوام کے خلاف ناجائز احکام روکنا اور عوام کو انصاف مہیا کرنا اور صحافت حکومت کے اچھے بُرے کاموں کو عوام کے سامنے اجاگر کرنا تاکہ عوام آنے والے انتخابات میں ممبران پارلیمنٹ کا محاسبہ کر کے اقتدار سے علیحدہ کر دے اور اچھی کارکردگی پر دوبارہ منتخب کر کے ایوانوں تک پہنچائے۔ اگر کسی ملک میں یہ چاروں ادارے صحیح کا م کر رہے ہوں تو سمجھ لیجیئے کہ ملک کا جمہوری نظام پٹڑی پر ہے۔اور اگر ان میں سے کوئی بھی ادارہ اپناکام صحیح نہیں کر رہا توجمہوری نظام خطرے میں ہے۔ اس لیے ملک کے تمام لوگوں، جن میں سیاست دان سرے فہرست ہیں عدلیہ کے فیصلوں کو ،چاہے ان کے حق میں ہوں چائے ان کے خلاف ہوں دل سے تسلیم کرنا ہی قانو ن کے پابند شہریوں کا کام ہے۔ جبکہ حکومتی وزرا کہتے ہیں کہ پانچ سا ل کے لیے منتخب کیے گئے کو پارلیمنٹ ہی نکال سکتی ہے کوئی اور ادارہ نہیں نکال سکتا۔ان حکومتی لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ پارلیمنٹ نے ہی قانون بنائے ہیں کہ کوئی ممبر پارلیمنٹ کرپشن کرے گایاصادق اور امین نہ رہے گا تو ملک کی اعلیٰ عدلیہ اس کو قانون کے مطابق سزا دے سکتی ہے۔ اسے تا حیات کسی بھی عوامی عہدے کے لیے تاحیات نا اہل کر سکتی ہے۔جیسے کہ عدلیہ نے نواز شریف اور جہانگیر خان کو تا حیات نا اہل قرار دے دیا ہے۔ آج ہم اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے بیک وقت تین اہم فیصلوں پر اپنے کالم کو مختص کریں گے۔
پہلا فیصلہ نیپ کے خلاف آیا جو اس نے سپریم کورٹ کی آبزرویشن کی روشنی میں نواز فیملی پر حدیبیہ پیپرز ملز کے حوالے سے دوبارا کھولنے کے لیے درج کرایا تھا۔ نیپ عدالت کو مطمن نہیں کر سکی کہ وقت پر اس کیس کو کیوں نہیں کھولا گیا۔عدالت نے اسے یہ کہہ کر خارج کردیا کہ قانون کے مطابق وقت نکل گیا اور اب آپ کیس کر رہے ہیں اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ لہٰذا نیپ کی درخواست خارج کی جاتی ہے۔ویسے عوام کو یہ بات تو سمجھ نہیں آئی کہ اگر کوئی حکمران ٹولہ کرپشن کرتا ہے۔ کرپشن پکڑنے والے ادارے میں اپنے بندے بھی بھرتی کر وا دیتا ہے، کرپشن کو پکڑنے والے ادارے کسی بھی وجہ سے وقت پر ان پر مقدمہ قائم نہیں کر تے تو اس کی کرپشن پر بعد میں مقدمہ قائم نہیں ہو سکتا۔ چائے وہ کرپٹ ہی ہو؟ دوسرے کیس کا۲۵۰؍ صفحات پر مشتمل فیصلہ سپریم کورٹ کے معززچیف جسٹس نے پڑھ کر سنایا۔یہ کیس حنیف عباسی صاحب نے داہر کیا تھا۔جس میں عمران خان کے لندن فلیٹ، آف شور کمپنی اور بیرون ملک پارٹی فنڈنگ سے متعلق تھا۔جہانگیرخان کی لندن میں پراپرٹی،اختیارات کے غلط استعمال،قرضوں کی معافی اور ٹرسٹ ڈیڈپرحنیف عباسی نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صاحب اور سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین صاحب کو نا اہل قررار دے۔ عدالت نے کیس سال بھر سنا اور عمران خان کو صادق و امین کہا اور اپنے فیصلے میں حنیف عباسی کی درخواست خارج کر دی۔ جہانگیر خان کو۵۲ ؍ون ایف کے تحت جرم کے اقرار اور جرمانہ ادا کرنے کی پادائش میں سیاست سے تاحیات نا اہل قرارنا دے دیا۔ اس فیصلہ کی روشنی میں، الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی سیٹ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا لودھریں حلقے کی سیٹ خالی ہو گئی۔ عمران خان کے متعلق اضافی نوٹ میں جسٹس فیصل عرب نے لکھا کہ نواز شریف پچھلے تیس سال سے عوامی عہدے پر فائز رہے۔نواز شریف عدلیہ کے سامنے صحیح جواب نہ دے سکے۔ جبکہ عمران خان کسی عوامی عہدہ پر فائز نہیں رہے۔ دونوں کے کیس ایک جیسے نہیں۔
صاحبو!ضرورت تو اس امر کی تھی ہر فریق عدلیہ کے فیصلوں کو خوش دلی سے مانتا ،مگر نواز لیگ کے حضرات نے حسب سابق اِف ا ینڈ بٹ کی گردانیں سنانی شروع کر دیں۔اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کو جانبدار فیصلہ کہا اور عدلیہ پر اعتراض کریا۔ جبکہ عمران خان اور جہانگیر خان نے عدلیہ کے فیصلہ کو تسلیم کیا اور پیٹیشن میں جانے کا اعلان کیا۔بلکہ جہانگیر نے تحریک انصاف کی سیکر ٹیری شپ سے مستعفی ہو گئے۔ تحریک انصاف کے سپوک پرسن فواد خان ایڈوکیٹ نے اپنی پریس کانفرنس میں فیصلوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے خلاف مخالفوں نے تین الزام لگائے تھے۔لندن فلیٹ، بیرون ملک سے فنڈنگ اور مالی بدعنوانی۔ عمران خان نے فلیٹ ایمنسٹی میں فلیٹ ظاہر کیا گیا تھا۔ اس لیے عدالت نے کلیئر کر دیا۔مالی بدعنوانہ بھی ثابت نہیں ہوئی۔ بیرونی ملکوں سے فنڈنگ کو عدالت نے الیکشن کمیشن کو بھیج دیا۔پانچ سال کی مدت کا بھی تعین کر دیا کہ وہ اس مدت تک کی تحقیق کرے۔ یعنی دو الزام ختم اور ایک الزام الیکشن کمیشن کو تحقیق کے لیے بھیج دیا گیا۔عمران کے خلاف حنیف عباسی کی پیٹیشن خارج کر دی گئی۔جہانگیر خان کو ٹرسٹ ڈیڈ کی تشریع کی بنیاد پر ٹیکنیکل بیس پر نا اہل قرار دیا گیا۔تحریک انصاف ریویو پیٹیشن دائر کرے گی۔ جہانگیرخان کو سپریم کورٹ نے غلط بیانی کی بنیاد پر تینوں ججز نے نا اہل قرار دیا اور کہا کہ جہانگیر خان صادق اور
امین نہیں رہے۔الیکشن کمیشن کو نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا بھی کہہ دیا گیا جو اس نے فوراً جاری کر دیا۔گو کہ ن لیگ والوں نے عمران خان کو کرپٹ اورنواز شریف کے مقابلہ میں پیش کیا تھا۔ مگر عدالت نے ان کی خواہشات پر مٹی ڈال دی اور عمران خان کو صادق اور امین ثابت کر دیا گیا۔ یہ کیس صر ف تحریک کو نقصان پہنچانے کے لیے داہر کیا گیا تھا جو ناکام ہوا۔عمران خان اعلیٰ عدالت بے داغ قرار پائے۔ البتہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ اے ٹی ایم خراب ہو گئی اور جہانگیر خان ناک آوٹ ہو گئے ۔ مریم نواز نے کہا کہ آج ثابت ہو گیا کہ نواز شریف کے ساتھ نا انصافی ہوئی۔جانبدارانہ احتساب اور احتساب کے نام پر انتقام سے تمام پردے اُٹھ گئے۔شہباز شریف نے کہا کہ سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیا۔تمام الزامات سے بری ہو گیا۔فیصلہ میری سیاسی زندگی کا عظیم دن ہے۔عمران خان نے بھی پریس کانفرنس میں کہا کہ میں نے ساٹھ کاغذات ثبوت کے طور پر اعلیٰ عدلیہ جمع کرائے جبکہ نواز شریف ثبوت میں صرف قطری خط پیش کر سکا۔ عمران خان نے کہا کہ میں فیصلہ تسلیم کرتاہوں۔جہانگیر خان کو نا اہل قرار دینے پر افسوس ہوا۔ ہم نظر ثانی کی اپیل دائر کریں گے۔ مجھ پر ایسے شخص نے کیس کیا جو خود منشیات فروش ہے۔اس پر مقدمہ چل رہا ہے۔ نواز شریف ملک سے۳۰۰؍ ارب روپے منی لانڈرنگ کر کے بیرون ملک لے گیا۔ میں نے پیسا باہر سے کمایا اور واپس پاکستان میں لایا۔ نواز شریف سے عدالت نے کرپشن کیس میں ثبوت مانگا تو صرف ایک قطری شہزادے کے خط کے علاوہ کچھ نہیں بھی ثبوت نہیں دیا۔نواز لیگ والوں نے مجھے ایک کرپٹ شخص سے مجھے ملانے کی کوشش کی۔ مگر اللہ کا شکر ہے کہ عدالت نے مجھے صادق اور امین قرار دے دیا اور ن لیگ والوں کے منہ کالے ہوئے۔ جہانگیر خان ٹیکنیکل بیس پر نا اہل قرار پائے اگر اسی بنیاد پر اتنی باریکی سے کیس دیکھے جائیں تو سارے ممبر پارلیمنٹ نا اہل قرار پا جائیں گے۔جہانگیرخان ایک کاروباری شخص ہیں ہر سال مکمل گوشوارے جمع کرواتے ہیں پوراٹیکس دیتے ہیں۔میڈیانے عمران خان سے جہانگیر خان کے جہاز اور ہیلی کاپٹر کے استعمال کی بات کی تو عمران خان نے جواب میں کہا کہ وہ پارٹی کے کاموں کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کی پارٹی کی طرف سے پیمنٹ کی جاتی ہے۔
تبصرہ نگاروں نے ٹی وی پر اپنے تبصروں میں کہاکہ نواز شریف اور عمران خا ن ففٹی ففٹی پوزیشن میں آ گئے ہیں۔ کیونکہ تحریک انصاف کے سیکرٹیری جنرل اعلیٰ عدالت سے نا اہل ہوئے۔ سپریم کورٹ نے نواز شریف فیملی کے حدیبیہ کیس میں نیپ کی مقدمہ دوبارہ کھولنے کی درخواست خارج کر دی۔سپریم کورٹ پر نواز لیگ کی طرف سے الزام لگایا جاتا تھا، کہ کسی کے کہنے پرنواز شریف کو نا اہل قرار دیا۔ وہ آج ثابت ہو گیا کہ سپریم کورٹ کسی کی بھی ناجائزحمایت نہیں کرتی بلکہ انصاف کرتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ نیپ نے
حدیبیہ کیس صحیح طریقہ سے پیش نہیں کیا۔مافیا نے پہلے ہی اپنے بندے نیپ جیسے اداروں میں لگائے۔شیخ رشید نے تبصرہ کیا کہ عمران خان بچ گیا اس کو جمانا نے بچایا۔ میں تو کہتا ہوں اگر مذہبی رکاوٹ نہ ہو تو عمران خان کو جمانا سے دوبارہ شادی کر لینی چاہیے۔ تحریک انصاف کو کئی اور جہانگیر خان مل جائیں گے۔ نیپ کے جاوید اقبال صاحب نے حدیبیہ کیس کے پراسکیوٹر کے لیے پانچ لوگ بھیجے مگر نوازحکومت نے ایک کو بھی نہیں لگایا۔ پھر جاوید اقبال نے خود سے پراسکیوٹر لگایا تو وہ بھی نہ لگ سکا۔حدیبیہ کیس نیپ نے صحیح طریقے سے ڈیل نہیں کیا۔تبصرہ نگار کہتے ہیں کہ لوگ اب نواز لیگ سے ٹوٹ کر تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں گے۔پیپلز پارٹی کے سینیٹر اور سینئر وکیل اعتزاز احسن صاحب سے میڈیا نے فیصلہ کے بارے معلوم کیا تو انہوں نے فرمایا کہ آج کے دن کو میں ایسے دیکھتا ہوں اور لگتا ہے کہ حدیبیہ کیس پر نواز شریف خاندان کے مقدمے میں سپریم کورٹ تقسیم ہو گئی ہے۔ حدیبیہ کیس سنتے وقت عدالت نے پاناما کیس میں معزز جج آصف سعید کھوسہ کے فیصلہ کا حوالہ بھی نہیں دینے دیا۔ سپریم کورٹ نے حدیبیہ کیس دوبارہ کھولنے اس بات پر رعایت نہیں دی کہ وقت گزر گیا۔ جبکہ نواز شریف کیس ۹؍ سال کے بعد کھولا گیا تھا تو اُسے تو منظور کیا گیا تھا۔ نواز لیگ کے مصدق ملک سے میڈیا نے سوال کیا کہ دو فیصلے آپ کے حق میں آئے اور ایک فیصلہ آپ کے حق میں نہیں آیا۔بجائے خوش ہونے کے انہوں نے کہا کہ عدالت نے جو ترازو نواز شریف کے لیے استعمال کیاتھا اگر وہی ترازو عمران خان کے لیے استعمال کیا جاتا تو عمران خان بھی نا اہل قرار دیے جاتے۔نواز شریف تو اپنے بچوں کی کمپنی سے تنخواہ نہ لی تو نا اہل قرار پائے ۔جبکہ عمران خان کی نیازی کمپنی پر گرفت نہیں کی گئی۔ اصل میں نواز شریف اپنے بیٹوں کی کمپنی کے ڈاریکٹر تھے جبکہ عمران خان نا تو آف شور کمپنی کے شیئر ہولڈر تھے اور نا ہی ڈائریکٹر تھے۔مصدق ملک نے کہا کہ حساب برابر کرنے کے لیے حدیبیہ کا فیصلہ اور عمران خان کا فیصلہ ایک دن ہی سنایا گیا۔ تبصرہ نگاروں نے کہا کہ عمران خان جب آنے والے ۲۰۱۸ء کی کے الیکشن میں جائیں گے تو صادق و آمین کے سرٹیفیکیٹ کے ساتھ جائیں گے جو ان کی جیت ہے۔ان کی کامیابی بھی ممکن ہو جائے گی۔جبکہ نوازشریف پارٹی کے لوگ ایک کرپشن شدہ تاحیات نا اہل سربراہ کے تحت الیکشن میں جائیں گے۔ عمران خان کو صادق و امین ہونے کا فائدہ اور نواز شریف کی پارٹی کا نقصان ہو گا۔ ن لیگ پارٹی پر ۲۰۱۸ء کے الیکشن میں بڑا اثر پڑھے گا۔ عمران خان کو اب وزیر اعظم بننے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔مریم اورنگ زیب فرماتی ہیں کہ منتخب وزیر اعظم کو اقامہ پر نا اہل کر دیا کہ اس نے اپنے بیٹوں سے تنخواہ نہیں لی۔ اورعمران خان کی نیازی کمپنی لیے کہا گیا کہ کوئی بات نہیں۔ یہ انصاف کے دو مختلف ترازو ہیں۔دینا ل عزیز کی پریس کانفرنس میں کہا گیا۔ کہ جہانگیر خان کو قربانی کا بکرا بنا کر پہلے سے بنے ہوئے اسکرپٹ کے مطابق عمران خان کو بچا لیا گیا۔غیر ملکی فنڈنگ کو نہیں جانچا گیا۔ عمران خان کی بیرون ملک فنڈنگ کے لیے الیکشن کمیشن کو کہا کہ پانچ سال سے پیچھے نہیں جائیں ۔جبکہ نواز شریف کی
۱۹۶۲ء تک ریکارڈ کو دیکھا تھا اور کرپشن دیکھی گئی۔ یہ فیصلہ غلامی دور کے فیصلوں جیسا فیصلہ ہے۔نواز لیگ کے کارکنوں نے اس موقعہ نعرے لگائے کہ عمران خا ن چور ہے۔نواز شریف کی ناجائز شور شرابہ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے عمران خان کے عدالت سے امین و صادق ثابت ہونے پر نواز لیگ کے لوگوں نے سپریم کورٹ کے خلاف غیر قانونی طور باتیں کرنے کی اپنی پرانی روش کا مظاہرہ کیا۔
قارئین جیسے کہ ہم نے کالم کے شروع میں عرض کی تھی کہ معذب جمہوری حکومتوں میں عدلیہ پر اعتماد کیا جاتا۔ مگر نواز شریف اور ان کی پارٹی کے لوگ اس پر عمل نہیں کر رہے۔ ن لیگ کو سمجھ لینا چاہے کہ نواز شریف کے کرپشن کیس میں نا اہل ہونے کے بعد بھی ان ہی کی حکومت ہے۔کسی ادارے نے جمہوریت کو ڈی ریل نہیں کیا بلکہ جمہوریت چل رہی ہے اور انشاء اللہ جمہوریت چلتی رہے گی۔ہاں ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے پہلے پیپلز پارٹی کے دو وزیر اعظموں کو اور اب ن لیگ کے وزیر اعظم کو کرپشن ثابت ہونے پر نال اہل قرار دیا جو صحیح ہے۔ ن لیگ کوملک میں اپنے ترقیاتی پروگرموں کو جاری رکھ کر محب وطن ہونے کا ثبوت پیش کرنا چاہیے۔ نواز شریف ۳۵ سال اقتدرمیں رہے۔ اب اپنی پارٹی کے دوسرے لوگوں کو سیاست کرنے کا موقعہ دیں۔