لاہور ( یواین پی )ملکہ ترنم نور جہاں کو دنیائے فانی سے کوچ کیے 17 برس بیت گئے لیکن ان کی مدھر آواز آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔میڈم نور جہاں کی پیدائش 21 ستمبر 1926 کو قصور کے ایک موسیقار گھرانے میں ہوئی نو برس کی عمر میں اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کرنے والی ملکہ ترنم کا اصل نام اللہ وسائی تھا جبکہ فلمی دنیا میں انہوں نے نور جہاں کے نام سے مقبولیت حاصل کی۔نور جہاں نے 1935 سے 1963 تک فلموں میں اداکاری کے ساتھ گلوکاری کے فن کا بھی مظاہرہ کیا اور مداحوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے اپنی خاص جگہ بنالی۔انہوں نے اردو، پنجابی، پشتو، سندھی اور فارسی زبان میں کئی ترانے اور گیت گائے، جو ایک کے بعد ایک مشہور ہوتے چلے گئے۔نور جہاں کے مشہور زمانہ گانوں میں ‘مجھ سے پہلی سی محبت’، ‘گائے گی دنیا گیت میرے’، ‘چاندنی راتیں’، ‘ہماری سانسوں میں آج تک’، ‘جدوں ہولی جئے’، ‘نگاہیں ملا کر’، ‘تمہی ہو محبوب میرے’ اور دیگر شامل ہیں۔انہوں نے بہترین گائیکی اور اداکاری کے باعث کئی ایوارڈز بھی جیتے، ان کی سریلی آواز اور خوبرو شخصیت کی وجہ سے انہیں پاکستان میں ملکہ ترنم کا خطاب دیا گیا۔ملکہ ترنم نور جہاں نے اپنے فنی کیرئیر کے دوران ہزاروں گیت گائے، خاص کر 1965ء کی پاک-بھارت جنگ کے دوران ان کے قومی نغمے قومی تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔حکومتِ پاکستان نے نور جہاں کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور نشان امتیاز سے نوازا۔ان کا کیریئر 6 دہائیوں پر مشتمل ہے، نور جہاں نے ایشیاء کے ساتھ ساتھ برطانیہ میں بھی شہرت حاصل کی۔ملکہ ترنم نور جہاں 23 دسمبر 2000 کو شدید علالت کے بعد دنیائے فانی سے رخصت ہوگئیں لیکن ان کی آواز کا جادو آج بھی مداحوں کے دلوں میں زندہ ہے۔