لیفٹینٹ جنرل (ر) شاہد عزیز صاحب کی کتاب’’ یہ خاموشی کہاں تک‘‘ کا مطالعہ ایک عرصہ ہوا کیا تھا نوٹ بھی لیے مگر اِسے عوام تک پہنچانے میں دیر لگی اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ قلم اُٹھانے پر مجبور ہوا۔ اس کتاب میں مشرف صاحب کے متعلق کافی بعث کی گئی ہے مکافات عمل مشرف کو اس مقام پرلے آئے ہیں کہ اُن کی جان پر بنی گئی ہے اُن کے آزادانہ فیصلوں کے متعلق اس کتاب میں کافی تفصیل درج ہے یہ تو روز روشن کی طرح پوری دنیا کو معلوم ہے صرف ایک کال بغیر اپنی فوج اور قوم سے مشورے کے بغیر امریکہ کے سامنے ڈھیر ہو جانا اور اپنے پڑوسی مسلمان ملک کے خلاف لا جسٹک سپورٹ کے نام پر پورے پاکستان کو امریکہ کی چراہ گاہ بنانے کے واقعات سے یہ کتاب بھری بڑی ہے یہ ایک تاریخی جرم ہے جس پر پاکستانی عوام اور پوری امت مسلمہ انہیں معاف نہیں کرے گی اس ایک ہی جرم کی وجہ سے پورا پاکستان عذاب میں مبتلا ہے گو کہ (ر)جنرل شاہد عزیز پر دانشوروں نے یہ الزاماتے لگائے کہ اب سب کچھ ہو جا نے کے بعد آپ کے انکشافات سے قوم کا کیا بھلا ہو گا مگر پھر بھی اس کتاب کے مندرجات سے آیندہ کے لیے کافی سبق موجود ہیں مشرف صاحب، اکبر بگٹی کیس، لال مسجد کیس وغیرہ کیسزمیں تو آزاد عدالتی نظام کی وجہ سے اُن کی ضماتیں منظور ہو چکی ہیں مگر غداری کیس میں باوجود عدالت کے بار بار بلانے کے ابھی تک وہ عدالت میں پیش نہ ہو سکے تاکہ اُن پر جرم لگایا جائے اور وہ اس کی صفائی میں اپنا بیان ریکارڈ کرائیں اور انصاف کے مطابق فیصلہ ہو ۔آج بی بی سی کی خبر کے مطابق مشرف صاحب نے گاڑی میں سوار ہوتے ہی عدالت جانے کا ارادہ بدل دیا برطانوی میڈیا کے مطابق ۳ بار گاڑی میں بیٹھے اور اتر گئے دھماکی خیز مواد کے پیغامات بھی وائر لیس پر گونجتے رہے ان کے وکلا کے مطابق وہ عدالت میں پیش ہونے کے لیے آ رہے تھے کہ اُ ن کی طبیعت خراب ہو گئی اور عدالت میں آنے کے بجائے اُنہیں آرمڈ فورسز انسیٹیوٹ فوج یعنی ملٹری دل کے ہسپتال میں لے جایا گیا جہاں وہ زیر علاج ہیں اِ ن کی سیکورٹی کے لیے ۱۶۰۰؍ اہلکار تعینات کئے گئے ہیں ڈاکٹرز کے مطابق حالت خطرے سے باہر ہے ڈاکٹرز نے انہیں باہر بھیجنے کی ضرورت پر سوچ بچار شروع کر دی ۔ میڈیامیں حکومت فوج اور مشرف کے درمیان ڈیل کی باتیں بھی گردش کر رہی ہیں باہر سے دوست ملکوں کی پاکستان آمد کی وجہ بھی اس کیس پر اثر انداز ہونے کی باتیں ہورہی ہیں حکومت کے اہلکارکہہ رہے ہیں اگر عدالت حکم کرے گی تو ہمیں اعتراض نہ ہو گا جہاں تک مشرف کے راستے میں بارودی مواد ملنے کا قصہ ہے تو مشہور ٹی وی اینکر جنہیں سوشل میڈیا پر راہ کے ایجنٹ ہونے کے طعنوں سے نوازہ جاتا ہے اور اپنے مرحوم قوم پرست والد کا انعام بنگلہ دیش میں جا کر وصول کرنے اور حسینہ واجد کو محب وطن اورپاکستان کی بقاکے لیے لڑنے والوں جن میں پاک فوج بھی شامل ہے کے خلاف ایکشن کا کہنے والے صاحب جن کی ویڈیو سوشل میڈیا جاری کی ہوئی ہیں نے انکشاف کیا ہے کہ آئی ایس آئی کے دو افراد نے ،جن میں ایک کا باہر کاروبار بھی ہے اور انہیں سروس میں ایکسٹینشن بھی کا ڈرامہ ہے۔ اسی ٹی وی کے چڑیا والے اینکر پرسن کی چڑیایہ خبر لائی ہے کہ فوج اور حکومت میں یہ طے تھا کی ویسے ہی مقدمہ بنائیں گے اس کو طولت دے کر مشرف کے لیے رہائی کا راستہ نکل آئے گا یہ ہسپتال میں داخل ہونا سب اسی طے شدہ ڈرامے کا حصہ ہے کچھ نہیں ہونے کا اور مشرف کو سزا نہیں ہو گی وہ بچ جائے گاان چڑیا والے روشن خیال صاحب کی بھی سوشل میڈیا پر ایک پرانی تصویر لگی ہے جس میں وہ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کے ساتھ اسلحہ لیے کھڑے ہیں تصویر لگانے والے نے ان کا نام لکھ کر کہا! پہچانیے کون ہے؟ اسی ٹی وی چینل کے اینکر پرسن خیانت کا ارتقاب کرتے ہوئے امن کی آشا پروگرا م میں پاکستانی عوام کو اپنے سروں کے ذریعے غلط اعداد شمار دے دے کر گمراہ کر رہے یہاں ان حضرات کی باتوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کو ن پاکستان کا ہمدرد ہے کس کی بات پر عوام یقین کریں ان حضرات کی کس بات پر یقین کیا جائے اور کس بات پر نہ کیا جائے پاکستان کے خیر خواہ اور جمہوریت پسند لوگ مخمصے میں ہیں کہ آزاد عدلیہ کے ہوتے ہوئے ایک موقعہ تھا کہ ۴ دفعہ اپنی ہی قوم کو فتح کرنے والے ڈیکٹریٹروں میں سے کسی نہ کسی کو اس کی سزا ملنے چاہیے تاکہ آیندہ مارشل لاء کا راستہ رکے ۔ اخبارات میں بار بار مشرف کے بیانات آتے رہے ہیں کہ میں نے سب کچھ فوج کی رضا مندی سے کیا ہے اسی رضا مندی کی کھوج کے لیے قارئین کو’’ یہ خاموشی کہاں تک؟ کے مصنف جنرل شاہد عزیز صاحب جو مشرف صاحب کے رشتہ دار بھی ہیں جنہوں نے ضمیر کی آواز پر اس کتاب میں وہی باتیں تحریر کی ہیں جو صحیح ہیں جن سے مشرف صاحب انکار نہیں کر سکتے ان تحریروں سے قوم کو آگاہ کرنے چاہتا ہیں (ر) جنرل شاہدعزیز شاہد فرماتے ہیں اس میں شک نہیں کہ میں نے مشرف کے ساتھ مل کر مارشل لاء لگایا تھا
میں اس جرم میں برابر کا شریک ہوں مگر کئی باتوں سے مجھے اور کور کمانڈروں کو اختلاف ہو تا تھا مشرف صاحب کور کمانڈروں کو وہی بات بتاے تھے جو اس کی عقل میں مطابق صحیح ہوتیں تھیں بہت سے کاموں میں مشرف صاحب کور کمانڈروں کو بے خبر رکھتے تھے جب اعتراض کیا جاتا تو کہتے تھے جو کچھ ضروری ہے وہ بتا دیا ہے باقی بتانا غیر ضروری ہے مشرف صاحب نے شمسی ایئر بیس، والبدین،ژوب اور جیکب آباد کے اڈے امریکہ کو دیے فوج کو اس سے لا علم رکھا جاتا تھا جب ان سے بات ہوتی تو کہتے میں تمام تصویر دیکھتا ہوں آپ کی نظر سارے معا ملات پر نہیں ہے جنرل شاہدعزیز صاحب فرماتے ہیں کہ ہم ہر میٹنگ میں مشورے دیتے تھے افغانستان کے معاملات میں امریکا کی طرف سے بھارت کو مداخلت کرنے کی اجازت کی بات کرتے تو مشرف ایک بھی نہ سنتے گوادر کی سی پورٹ سے امریکی جنگی سامان لا کر افغانستان بھیجتے رہے فوج میں کسی کو خبر نہیں تھی ایک ریٹائرڈ میجر نے انہیں اس کی خبر دی۔ کراچی سے این ایل سی کی گاڑیاں امریکی جنگی سامان افغانستان تک لے جاتے رہے میں نے مشرف سے سخت ترین مخالفت کی۔مشرف نے امریکہ پر بروصہ کیا اور پورے ملک کو امریکہ کی گود میں ڈال دیا بلوچستان میں امریکہ کاروائیں کر رہا ہے افغانستان سے آئے ہوئے اسلحہ بھرے ٹرک کی ان کو خبر دی گئی مگر انہوں نے کوئی کاروائی نہیں کی نہ کرنے دی اور خاموشی اختیار کی بھارت فاٹا میں لوگوں کو تربیت دے رہا کا کہا گیا پاکستانی طالبان کی امریکہ مدد کر رہا ہے یہ سب مشرف کو معلوم تھاپھر بھی کو ئی کاروائی نہیں کی کیا کیا بیان کیا جائے اس وقت قومی اور بین الاقوامی پریس میں مشرف کا یہ کہنا کہ میں نے سب کچھ فوج کی رضا مندی سے کیا اس کا کوئی ثبوت نہیں یہ اُن کی غلط بات ہے اب وہ دنیا کی ڈسپلن پاکستانی فوج کو اپنی جان بچانے کے لیے گھسیٹ رہے ہیں جو غیر قانونی اور غلط ہے آئین کو دو دفعہ توڑنے ججوں کو نظر بند کرنے پر انہیں قانون کا سامنہ کر چاہیے تاکہ قانون کی سربلندی ہو اور ملک کا نظام آئینی طریقے سے چلے روز روز کے مار ش لاؤں سے پاکستان کی جان چھوٹے مبصرین کے مطابق ہماری فوج میں الحمد اللہ ڈسپلن ہے اگر کسی کام میں ان کی رضا شامل نہ بھی ہو مگر ان کا کمانڈر کچھ کر دے تو ڈسپلن کی وجہ سے وہ اس بات کی مخالفت نہیں کرتی مگر مشرف صاحب نے اس سے ناجائز فائدہ اُٹھایا جس کی اُسے سزا ضرور ملنی چاہیے تاکہ آیندہ کوئی بھی ڈکٹیٹر ایسا نہ کر سکے اور ہماری بہادر فوج بدنام نہ ہو۔