مقصود انجم کمبوہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک نئی حماقت سے پوری دنیا میں بھونچال سا آگیا ہے مسلمانوں کے دلوں پر کیل ٹھوکنے والے امریکی صدر نے شائد یہ سمجھ لیا ہے کہ ان میں جان نہیں کہ وہ اس کے فیصلے کو بدلنے پر مجبور کر سکیں کیونکہ بیشتر مسلمان ممالک کے درمیان کئی نوع کے تنازعات جنم لے چکے ہیں وہ ایک دوسرے کی جان کے پیاسے بن چکے ہیں سعودیہ اور ایران کے درمیان ایک بہت بڑی خلیج بن چکی ہے جسے پاٹنا کسی قوت کے بس میں نہیں رہا اسی طرح کویت سے بھی بعض ممالک کو جس میں سعودیہ سرِ فہرست ہے جنگ کی سی کیفیت پائی جاتی ہے جبکہ امریکہ کویت کے اندر اپنا اثرو رسوخ بڑھا رہا ہے اور کویت سے اپنے مفادات کے حصول کے لئے اس کے ساتھ تعلقات کشیدہ کر نے کے لئے کسی قسم کی رکاوٹ برداشت نہیں کرنا چاہتا 1973میں عرب ممالک کا ایک بہت مضبوط اتحا وجود میں آیا تھا اس اتحاد کا بڑا مقصد اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانا تھا مصر کی فوجی قیادت اس معاملے میں سب سے آگے تھی سویت یونین عرب اتحاد کی پشت پر تھا مگر اس جنگ میں جو آگ او ر خون کی جنگ تھی اسرائیل بے بس ہو چکاتھا آخر امریکہ اس جنگ میں کود آیا اور مصر ، اردن اور شام کے علاقوں پر قبضہ کر کے عرب اتحاد کو بے جا نقصان پہنچایا گیدڑ اسرائیل کو شیر بنا دیا گیا تب سے اسرائیل کو نئی زندگی ملی اور پھر وہ عربوں کے اعصاب پر مسلط ہوگیا جو آج تک ہے اصل وجہ عرب اتحاد میں دراڑیں اور امریکی قوت جس نے اسرائیل کو عربوں کے سینے میں خنجر گھونپنے کی جرأ ت و ہمت دی آج اس جنگ کو صدیاں بیت چکی ہیں مصر کے مرحوم صدر جنرل انور سادات نے امریکی صدر کے ذریعے اسرائیل کیساتھ کیمپ ڈیوڈ سمجھوتا کرکے اپنے تمام علاقے واگذا رکروالئے جبکہ شام کی گولان کی پہاڑیاں اب تک اسرائیل کے قبضے میں ہیں جس کو حاصل کرنا اب شام کے بس میں نہیں رہا امریکی سازش نے شام کے اندر ایسی چنگاری جلائی ہے جس نے شام کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دیا ہے “دائش “کو امریکہ نے اس قدر مضبوط و توانا کردیاہے کہ وہ امریکی اسلحہ اور دیگر وسائل کے بل بوتے پر شام کی اینٹ سے اینٹ بجا رہا ہے سینکڑوں بے گناہ عورتیں ، بچے اور بوڑھے خون میں نہا رہے ہیں مگر ان کو بچانے والا کوئی نہیں ہے شام نے روس کی مدد اور تعاون تو لیاہے مگر اس جنگ میں نققصان تو شامی مملکت و عوام کا ہی ہورہا ہے سینکڑوں بے گناہ لوگ روزانہ شہید کئے جارہے ہیں اقوام متحدہ بھی بے بس نظر آرہی ہے امریکہ اپنے مفاد کے لئے اپنا تن من دھن لٹا رہا ہے اس ساری صورتحال کا فائدہ اسرائیل کو پہنچ رہا ہے عربوں کے درمیان جو دراڑیں پڑ چکی ہیں اس کا سدباب کسی کے بس میں نہیں رہا اب شام میں امن ہو بھی جائے تو شام کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں صدیاں لگیں گی صدام مرحوم کے اقتدار پر امریکہ نے ایک سازش کے تحت قبضہ کیا پہلے ایران اور عراق کو آپس میں لڑایا پھر عراق کو کویت پر چڑھائی کرنے کا مشورہ دیا بالاآخر کویت کا ساتھی بن کر عراق کی پشت پر کیل ٹھوکا بعد ازاں لیبیا میں عوامی بغاوت کے بیج بو کر کرنل قذافی کا خاتمہ کیا آج لیبیا جو کبھی عربوں کی طاقتو ر ریاست تھی کو تار تار کر دیاہے کرنل قذافی مرحوم امریکہ کو اپنے جوتے کی نوک پر سمجھتا رہا جبکہ آج لیبیا ہچکولے کھانے پر مجبور ہے امریکی پالیسیاں ہیں ہی مسلمانوں کے مخالف وہ اسرائیل کو تھانیدار بنا کر رکھنا چاہتا ہے اس لئے امریکی صد ر نے یروشلم کو بیت المقدس کا دارلخلافہ قرار دے دیا ہے اور خود اپنا سفارت خانہ بنا لیا ہے بعض مسلم ممالک امریکی صدر کی ہاں میں ہاں ملانے پر تُلے ہیں اور وہ چھوٹے ممالک کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ دو ہاتھیوں کی لڑائی میں نہ آئیں ورنہ کچلے جائیں گے اب پاکستان جہاں کا ہر شخص ختم نبوت کے معاملے پر اپنی جان قربان کر نے کو تیار ہے کو بھی مشورہ دیا جارہا ہے کہ وہ اس معاملے میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیں سپیشل جہاز کا آنا اور پاکستانی حکمرانوں کا جانا کچھ دال میں کالا کالا لگتاہے اقوام متحدہ کی قرار داد سے معاملہ حل نہیں ہوگا امریکی صدر بڑے ہٹ دھرم ہیں وہ اس کو کامیابی سے ہمکنار کر کے دم لیں گے امریکی صدر کو یہ علم ہے کہ پاکستان میں مذہبی طبقے بڑے طاقتور اور مذہبی جوش و خروش رکھتے ہیں اس لئے پاکستانیوں کو بیت المقدس کے معاملے سے دور رکھنا ضروری ہے اسپیشل جہاز کا آنا اور کلیدی عہدیداروں کو لے کر جانا سوائے اس کے اور کوئی مقصد نہیں ہو سکتا میری سمجھ میں تو یہی بات آتی ہے امریکی صدر کو صرف اسرائیل نظر آتا ہے فلسطین نظر نہیں آتا جہاں ظلم و زیادتی کے روزانہ پہاڑ توڑے جاتے ہیں اسے کشمیر نظر نہیں آتا جہاں بھارت کشمیریوں کا تہیہ تیغ کئے جارہا ہے آٹھ دس لاکھ فوجی کشمیریوں کی نسل کشی پر تُلے ہوئے ہیں انسانیت کے قاتلوں کی حمائت میں امریکہ سرِ فہرست ہے بیت المقدس کے ایشو پر اقوام متحدہ میں ہونے والی ووٹنگ میں نہ صرف مسلمان ممالک تھے بلکہ یورپی اور بعض مغربی ممالک نے بھی حصہ لیا ہے ترک کے صدر طیب اردگان کو سلیوٹ پیش کرتا ہوں جو برما اور بیت المقدس کے ایشو پر جوش اور جذبے سے پیش پیش ہیں اور ان کے جذبات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس دور کے محمود غزنوی ہیں محمد بن قاسم ہیں اللہ کرے ہمارے حکمران بھی اپنے پاؤں پر مضبوطی سے کھڑے ہوجا ئیں مگر ایسا لگتا نہیں ہے کیونکہ وہ خود قاتل ہیں 14بے گناہ مسلمانوں کے قتل اور سینکڑوں کو زخمی اور معذور کرنے میں امریکی پالیسی یہ ہے کہ اپنا کام نکالو اور دوسرا جائے بھاڑ میں افغانستان سے اربوں ڈالر کی معدنیات لے چکا ہے اور باقی رہی سہی بھی لے جائے گا عراق سے کروڑوں ٹن تیل لے چکا ہے اس کے تو وارے نیارے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان فاصلے بڑھانے کا گُر جانتا ہے آپس میں لڑانے جھگڑانے کا ہنر رکھتا ہے اور وہ اس پالیسی میں کامیاب نظر آتا ہے ۔