تحریر۔۔۔۔ مرزا روحیل بیگ
اسرائیل کے ساتھ بھارت کے تعلقات کی تاریخ طویل ہے۔ 1950 میں بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے یہ کہہ کر کہ ” اسرائیل ایک حقیقت ہے ” اسرائیل کو ایک خودمختار ریاست تسلیم کر لیا تھا۔ لیکن عوامی دباؤ اور سیاسی مفادات کی وجہ سے باقاعدہ سفارتی تعلقات 42 سال تک خفیہ رکھے۔ 1992 میں بھارت نے پہلی مرتبہ اسرائیل میں سفارت خانہ کھولا۔ 1947 میں اسرائیل کے ساتویں صدر عیزوایزمان پہلے اسرائیلی صدر تھے جنہوں نے بھارت کا دورہ کیا۔ 1999 میں کارگل جنگ کے موقع پر اسرائیل نے کھل کر بھارت کی حمایت اور مدد کی۔ جس کا اقرار 2008 میں اسرائیلی سفیر نے بھی کیا۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ” را ” اسرائیلی خفیہ ایجنسی ” موساد ” کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتی ہے۔ 90 کی دہائی میں پاکستان نے را اور موساد کے پاکستان مخالف خفیہ تعلقات پر اس وقت آواز اٹھائی جب سیاحت کے نام پر دو اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے اہلکار مقبوضہ کشمیر میں آئے۔ ان میں سے ایک کو کشمیری مسلمانوں نے مار دیا اور ایک کو اغوا کر لیا تھا۔ اسرائیل فلسطینی مظلوم مسلمانوں پر پچھلے ستر سال سے ظلم کر رہا ہے۔ دوسری طرف بھارت بھی ستر سالوں سے کشمیری مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ پاکستان مخالف بھارت، اسرائیل کا یہ اتحاد اور پھر مودی حکومت کے آنے کے بعد اس اتحاد میں پختگی اور اضافہ پاکستان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔ ایک طرف بھارت پاکستان کے خلاف اسرائیل کے ساتھ قربتیں بڑھا رہا ہے، دوسری طرف سی پیک کے خلاف بھارت امریکا، اسرائیل، افغانستان اور ایران کے ساتھ مل کر لابنگ کر رہا ہے۔ مشرق وسطی ایک طویل عرصے سے عدم استحکام کا شکار ہے، جبکہ افغانستان میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ لائن آف کنڑول پر بھارتی جارحیت اب ایک معمول بن گئی ہے۔ ایسے میں 2,5001 میل کے فاصلے پر موجود بھارت کے ساتھ اسرائیل کی بڑھتی ہوئی قربت کے پیچھے چھپے مزموم مقاصد کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جسے تقویت اس خدشے سے ملتی ہے کہ دفاع ایک ایسا شعبہ ہے جسے بھارت کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک میں گزشتہ پچیس برسوں میں 10 ارب ڈالر کے دفاعی سازو سامان کا سودا ہو چکا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے پاس سے کئی مرتبہ اسرائیلی ساخت کا اسلحہ ملنے کی خبریں بھی میڈیا میں رپورٹ ہو چکی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بھارت اور اسرائیل کے مابین ہونے والے معاہدوں پر کڑی نظر رکھے، کیونکہ ایک مضبوط اور خوشحال ایٹمی پاکستان دنیا کو ہمیشہ کھٹکتا ہے۔ اسی لیئے تو وہ پاکستان کو کمزور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پاکستان کے خلاف ہندو یہودی گٹھ جوڑ کیا رنگ کھلائے گا، اس بارے کچھ کہنا قبل ازوقت ہو گا لیکن جیسا کہ قرآن پاک میں واضح الفاظ میں بتایا گیا ہیکہ ” یہود و نصاری کبھی دوست نہیں ہو سکتے ” اس لیئے پاکستان کو اسرائیلی وزیراعظم کے بھارت کے 6 روزہ طویل دورے پر گہری نظر رکھنی چاہیئے کیونکہ عالمی میڈیا میں اسے ایک اہم تاریخی دورہ قرار دیا جا رہا ہے۔ بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ سے درحقیقت ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی اور تنصیبات کو زیادہ خطرہ لاحق ہے، کیونکہ اس گٹھ جوڑ کے تحت 80 کی دہائی سے گھناؤنی سازشوں کا سلسلہ جاری ہے جس کے تحت 1988 میں امریکا کی جانب سے بھارت اور اسرائیل کی معاونت سے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر فضائی حملے کی کوشش بھی کی جا چکی ہے۔ بھارت نے اسرائیل کو رام کرنے کے لیئے اپنے تین مورتی چوک کا نام ہائیفا تین مورتی چوک رکھ دیا ہے۔ ہائیفا اسرائیل کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ نتن یاہو کے ہمراہ اسرائیلی تاریخ کا سب سے بڑا تجارتی وفد بھارت آیا ہے۔ جو یہاں ٹیکنالوجی، زراعت اور دفاعی شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لیئے بھارتی حکام سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ بھارت اور اسرائیل کے مابین دفاع، تیل اور گیس، قابل تجدید توانائی، سائبر سکیورٹی اور مشترکہ فلم سازی کے شعبوں سمیت 9 معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ اسرائیل بھارت کو سب سے زیادہ اسلحہ فراہم کرنے والا ملک ہے۔ ہر سال ایک ارب سے زائد کا عسکری سازو سامان بھارت کو فروخت کرتا ہے۔ بھارت کے لیئے سب سے زیادہ کشش ڈرون بنانے والے گروپ ” ایروناٹک ڈیفنس سسٹم میں ہے ” سرحدی حفاظتی نظام، قومی سلامتی اور دہشت گردی کے انسداد کے معاملات میں اسرائیل بھارت کے ساتھ اشتراک کر رہا ہے۔ ڈیری، بنجر علاقوں میں آبپاشی، زراعت، توانائی، انجنیئرنگ و سائنس کے شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور اشتراک تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کا دورہ خاصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ امریکا بھارت اور اسرائیل کو افغانستان میں اہم کردار سونپنے کا خواہشمند ہے۔ امریکا چاہتا ہے جنوبی ایشیا میں بھارت اس کے مفادات کی اسی طرح جنگ لڑے جس طرح عرب خطے میں اسرائیل اس کے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے۔ ان کشیدہ حالات میں ہمیں غور کرنا چاہیئے یا دھرنوں، حکومتیں گرانے اور اپنے اپنے سیاسی بادشاہوں کی ناز برداریوں میں مصروف رہنا چاہیئے۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ملک کے لیئے کسی خطرے سے کم نہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم کے دورہ بھارت کو تجزیہ کار پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ اس صورتحال میں جہاں سول اور عسکری قیادت کو متحد ہو کر دفاع وطن کے لیئے قوم کے سیسہ پلائی دیوار بننے کا ٹھوس پیغام دینے کی ضرورت ہے، وہیں موجودہ صورتحال مسلح افواج کے تمام محاذوں پر ہمہ وقت مستعد رہنے کی بھی متقاضی ہے۔ ملک کی سالمیت سے زیادہ ہمیں بہرصورت کوئی چیز عزیز نہیں ہو سکتی۔