تحریر:محمد ثاقب شفیع
جی کیا الیکشن تھا ، ہار اور جیت اپنی جگہ لیکن مقابلہ کیا خوب رہا!جب الیکشن کی بات ہو تو فوراََسیاسی الیکشن کا خیال آجاتاہے ارے بھائی! لیکن ایک ایسا بھی الیکشن ہے جو ہر سال پاکستان میں لڑا جاتا ہے ،کوئی ہارجاتا ہے تو کوئی جیت جاتا ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ الیکشن لڑنے والے مخالف گروپس پھر دوبارہ ایک دوسرے سے گھل مل جاتے ہیں لیکن اپنے اتحاد کو بکھرنے نہیں دیتے اسی وجہ سے یہ پریشر گروپ ملک کے کونے کونے میں اپنی مثال آپ ہیں، مزیدیہ کہ! عقل مند کو اعشارہ ہی کافی ہوتاہے۔
ایسا ہی ایک الیکشن جو میری نظر سے گذرا بلکہ اسکا حصہ بھی بنا رہا ، یقین کریں ڈر بھی اتنا رہا تھا کہ کہیں اچانک ماحول کشیدہ نہ ہوجائے اور مارے جان کے لالے نہ پڑجائیں کیونکہ ان کے اور پولیس والوں کے بارے میں یہی مشہور ہے! اجی ان سے دوستی مہنگی پڑتی ہے، کیا کہنا ان شوخ مزاج نوجوانوں کا جو الیکشن کے دن چہرے پر مسکراہٹ لئے ہوئے اپنے کینڈیڈیٹ کے لئے کمپین کر رہے تھے اور شگفتگی کا مظاہرہ کرتے کہہ رہے تھے جناب ووٹ ہم کو ہی دیجیے گا ،آپ کے ووٹ پر ہمارا حق ہے اور ووٹر کہہ رہا تھا جی جناب کیوں نہیں ،میں آیا ہی آپ کو ووٹ دینے ہوں چاہے جا کر ووٹ دوسرے امیدوار کوکاسٹ کرتا،پر کیا خوب شگفتہ زبا ن سے بات ہو رہی تھی ! بھائی میرے یقین کرو کہ یہ سب دیکھ کر میں تو خود کہنے پر مجبور ہوگیا ؟ اسے کہتے ہیں اصل جمہوریت اور قانون والوں کی بات چیت ایسی ہی ہوتی ہے، پر کیا سمجھائیں ان ٹی وی چینلز والوں کو جو ایک ہی واویلہ مچاتے ہیں ،وکلا ء گردی وکلاء گردی۔
پاکستان کی سب سے بڑی صوبائی بار کونسل پنجاب بار ہے جس کی ماتحت 124بارکونسز ہیں، ان بار کونسلز میں جنوری کے مہینہ میں الیکشن کا معرکہ لڑا جاتا ہے ،جس سے بار کونسلز کی نئی باڈی تشکیل دی جاتی ہے جن میں صدر ، نائب صدر،سیکریٹری بار،جوائٹ سیکریٹری ،فنانس سیکریٹری،لائبریرین اور ایگزیکٹو ممبرز کے عہدوں کا چناؤ ہوتا ہے۔اس سال 13 جنوری کو پورے پنجاب میں وکلاء کا الیکشن ہوا،ایسا ہی ایک الیکشن سینٹرل پنجاب کی ایک اہم ڈسٹرکٹ بار کونسل ٹوبہ ٹیک سنگھ میں منعقد ہوا،جس کا کچھ منظر میں نے ابتداء میں بیان کیا ، دونوں گروپوں کی طرف سے ناشتہ کا احتمام ہوا،بعد از دوپہر تک ناشتہ چلتا رہا ،جبکہ بمعہ ناشتہ کمپین ،سلیفیاں اور فیس بک سٹیٹس بھی اپ ڈیٹ ہوتے رہے، دوپہر کا پر تپاک لنچ پھر شام کی چائے اور بالاخرووٹ کاسٹنگ کامرحلہ اختتام کو پہنچا ۔
اب بات سب سے اہم لمحات کی جن سے پتہ چلتا ہے کہ وکلاء کیونکر اتنے متحد ہیں ،ایک دوسرے سے نوک جھوک بھی کرتے ہیں پر پھر اپنی بار اور وکلاء کے تقدس کو پامال نہیں ہونے دیتے،ووٹ کا ؤنٹنگ کے وقت سب وکلاء بڑے نظم اور احتمام سے بار میں نششتوں پر بیٹھ گئے ،ہر سو ء خاموشی نے اپنا قبضہ جما لیا اور پہلے ووٹ کی کاؤنٹنگ کا اعلان ہوا تو پولنگ ایجنٹس نے اپنے اپنے امیدواروں کے ووٹ کی کاؤنٹنگ کا اندراج کرنا شروع کیا،صدر بار کے امیدواروں کے درمیان کچھ خاص مقابلہ دیکھنے کو نہ ملا ،ان میں کافی لیڈ کا فرق پڑ گیا ،پر دوسری طرف سیکریٹری بار اور فنانس سیکریٹری کے درمیان کانٹے کی ٹکر رہی ،کیا مقابلہ تھا ایسا لگا جیسا کہ کوئی کرکٹ میچ ہو رہا ،ایک ایک ووٹ کا اتار چڑھاؤ اور گروپوں کے دل ہچکولے کھاتے ہوئے،کبھی اگراتحاد گروپ اوپرتو کبھی اتفاق گروپ کا کینڈیڈیٹ اوپر ،واہ رے واہ ،اسی طرح گرم جوشی کا سلسلہ چل رہا تھا ،کہ جیالوں نے جیت کا نعرہ بلند کیا اور بار میں راجہ خالد محمود بطور صدر کی کامیابی بھاری اکثریت سے کنفرم ہوئی ، صدر کے کنفرم ہونے کے بعد سیکریٹری بار کی نششت اور سیکریٹری فنانس کی نششت پر کانٹے کی ٹکر رہی، کاؤنٹنگ آخری مراحل میں پہنچ چکی تھی صحافی برادرری اس مقابلے کا خوب لطف لے رہے تھے ، کبھی ایک ووٹ کا فرق تو کبھی مقابلہ برابر اور پھر ایک دو ووٹ کی لیڈ اور پھر لیول ،پھر چند ووٹ کا فرق اور پر مقابلہ برابر ،لیکن اس دوران وکلاء کا کوئی بھی منفی ری ایکشن نہ تھا بلکہ شوخی طراری کرتے اور اپنے اپنے امیدوار کی اٹھان پر خوب آس کرتے ،کاؤنٹنگ کے آخر ی چند ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوئے جن میں محمد وسیم عباس گادھی سیکریٹری بارجبکہ مس سعدیہ شریف فنانس سیکریٹری بار منتخب ہوئیں، یہ سارا الیکشن صرف نوجوان وکلاء کی بھر پور شمولیت اور بار میں انکی ایکٹو پارٹیسپیشن کی بابت ایک ایسے موڑ پر پہنچ گیا جس کا اندازہ بھی نہ تھا ،الیکشن کے حتمی نتائج کے آنے کے بعد تما م وکلاء پھر سے ایک دوسرے سے اس طرح گھل مل گئے جیسے کبھی ان میں کوئی مقابلہ ہو ا ہی نہیں، پھر ہنسی خوشی ایک دوسرے کے گلے لگتے رہے ،مٹھائی تقسیم کرتے رہے اور خوب مبارک باد دی ،ڈھول ڈھماکہ اور یہ ایک ہی فیملی کا حصہ ہوں ،یہ ہوتا ہے اتحاد جس وجہ سے پورے ملک کے وکلاء اکھٹے ہوتے ہیں تو وقت کے مصنوعی اقتدار کے بادشاہ بھی ان کے سامنے ٹِک نہیں پاتے چاہے وہ مشرف ہو یا کوئی اور۔