تحریر۔۔۔ میر افسرامان
ہمارے نزدیک دینی مدارس اسلام کی فوجی چھاونیاں ہیں۔مساجد کے مینار اسلام کے میزائل ہیں۔مدارس، اسلام کی چھاونیوں میں مسلمانوں کی اصل، یعنی قرآن اور حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے۔سیکھایا جاتا ہے کہ اللہ کا دین کیا ہے۔سکھایا جاتا ہے کہ اللہ کے دین ہی کو اللہ کی زمین پر غالب ہو کر رہنا ہے۔ مسلمانان اس دنیا میں محکوم ہورہنے کے لیے نہیں پیدا کیا گیا۔کس طرح اللہ کے رسولؐ نے تکالیف برداشت کر کے اللہ کا پیغام عام غافل لوگوں تک پہنچایا۔کس طرح لوگ اسلام پر ایمان لا کر مسلمانوں میں شامل ہوئے ۔اللہ، ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمدصلہ اللہ علیم و سلم سے راضی ہوا۔ حج الوداع پر اللہ کے رسولؐ نے لاکھوں صحابہ اللہ سی پوچھا کیا میں نے اللہ کا دین آپ تک پہنچا دیا ہے۔ صحابہؓ نے کہا جی آپ نے اللہ کا دین ہم تک پہنچا دیا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا، اے اللہ آپ بھی گوہ رہیں کہ میں نے آپ کا دین آپ کی مخلوق تک پہنچا دیا۔پھر آیت نازل ہوئی کہ آج میں نے تھاراا دین یعنی دستور زندگی مکمل کر دیا ہے ۔ دنیا کے انسانوں کے لیے یہ دین پسند کیا ہے۔اب رہتی دنیا تک اس ہی دین پر عمل ہو گا۔ پھر کس طرح صحابہ کرامؓ نے اللہ کے رسولؐکا ساتھ دے کر اس دین اسلام کو دنیا پھیلا یا۔ رسولؐ اللہ نے مدینہ کے اندر اللہ کے حکم کے مطابق اسلامی ریاست دنیا میں نمونہ کے طور پر قائم کی ۔انسانیت کو بتایا کہ کیسے اللہ کے احکامات پر عمل کر کے اس دنیا کو جنت بنایا جا سکتا ہے۔پھر مدینہ کی اسلامی ریاست پر عمل کر کے مسلمانوں کے خلفاء راشدینؓ نے اس دنیا پر اللہ کے بندوں کے لیے اللہ کی حکومت چلا کر دکھائی۔ اسی نمونہ پر عمل کرنے کے لیے اور اسے دنیا میں قائم کرنے کے لیے مسلمان دینِ اسلام کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔اس پر عمل کرتے ہیں اور اسے آگے مخلوق خدا کودین اسلام سیکھاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دینی مدارس سے طالبعلم دین کی تعلیم اور تربیت حاصل کرکے مساجد میں امام کے فرائض ادا کرتے ہیں۔ عام مسلمانوں کو دین اسلام سیکھاتے ہیں۔ اسلام کے فرائض، سنت اور نفافل پر عمل کرنے کی تریت دیتے ہیں۔ مساجد میں نماز یں پڑھاتے ہیں۔نماز پڑھنے کے طریقے سیکھاتے ہیں۔دینِ اسلام کو اللہ کے بندوں میں پھیلانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ جہاد کے طریقے سکھاتے ہیں تاکہ دنیا میں صرف اللہ کا کلمہ بلند ہو۔جب دنیا میں اسلام کی حکمرانی تھی تو حکمران اسلامی مدارس بناتے تھے۔اسلامی دنیا میں مدارس کا جال پھیلا ہوتا تھا۔ ان ہی مدارس سے پڑھ دنیا اسلام میں بڑے بڑے نام ور عالم، دانشور، سائنسدان،قانون دان اور حکمران پیداہوئے۔اسلامی کی ہی تعلیمات سے روشناس ہو کر مسلمانوں نے بنو امیہ کے دور حکمرانی تک اس وقت کی معلوم دنیا کے غالب حصہ پر اسلام کا جھنڈا لہرا دیا تھا۔ اسلام پر عمل پیرا مسلمانوں نے اس دنیا پر ایک ہزار سال تک کامیابی سے حکمرانی کی۔ دنیا میں علم و ادب کو عام کیا۔اسلام کے نامور مسلمان سائندانوں نے دنیا میں راج جدید علوم کی بنیاد رکھی۔ جس پر آگے عمل کر کے مغرب کے عیساؤں نے ترقی کے منازل طے کیے۔ پھر اس ہی علم کے بنیاد پر قوت حاصل کر کے مسلمانوں پر غلبہ حاصل کیامسلمانوں کو غلام بنا لیا۔ پہلے مسلمانوں کے علم کے ماخذ اسلامی کتب کو بغداد کے اندر تباہ کیا گیا۔طاقت کے ماخذ مدارس سے عام مسلمانوں کو شیطانی علم اور تہذب کے طرف مائل کیا۔جس پر اکبر الہ بادی نے اپنے شعر میں اس طرح بیان کیا:۔ مسجد ہم نکل گئے بسکٹ کی چاٹ میں۔ صاحب سلام اب بھی میری شیخ جی ہے۔لیکن چھٹے چھ ماہے وہی رہ بانٹ میں۔
صاحبو! و لارڈ مکالے نے برصغیر کے اندر ایسا نظام تعلیم قائم کیا جس نے مسلمان کو مسجد اور مدرسے سے کاٹ کر بسکٹ کی چاٹ میں لگا دیا۔ یعنی نوکری کے لیے کلرک تیار ہونے لگے۔پھر مسلمانوں نے دین کی تعلیم کے بجائے بچوں کو انگریزی ذریعہ تعلیم کے اسکولوں میں داخل کرنا شروع کیا۔ مدارس کی دینی تعلیم سے عام مسلمان کٹنے لگے۔ انگریزی نظام تعلیم میں پڑھنے والے طالب علموں گورنمنٹ میں نوکریاں ملنے لگیں۔ مسلمان حکومتوں نے انگریزی نظام تعلیم کے لیے اسکول،کالج اور یونیورسٹیاں بنائی۔ اس سے تعلیم حاصل کرنے والے مسلمان عیسایوں کے الہ کار بنے۔ ملک میں اسلامی نظام حکومت کے بجائے سیکولر حکومتیں قائم کیں جو مسلمانوں کی تباہی کی جڑ ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے دین، تہذیب، تمدن اورتاریخ سے کاٹ کر رکھ دیا۔مسلمان حکومتوں نے اپنی میراث ،دینی تعلیم اور مدارس کو کاٹ پھینکا ۔ ان حالات میں علمائے دین نے مساجد اور مدارس کو قائم رکھنے کی کوششیں کی جدو جہد جاری رکھی۔عام مسلمانوں کی زکوٰۃ و عطیات سے مدارس کا نظام چلایا۔ آج لاکھوں غریب مسلمان طالب علم ان میں مفت تعلیم حاصل کر رہے۔ ان کے رہنے، لباس خوردو نوش کا انتظام ان مدارس نے نمبھال رکھا ہے۔ مسلمان حکومتوں نے نہ تو مدارس قائم کیے نہ کسی قسم کا فنڈ جاری کیا۔عیسائیوں کے شیطان کبیر اور نیو ورلڈ آڈر والے امریکا نے پاکستان میں اسلام اور اس کی چھاونیوں مدارس کو ختم کروانے کے لیے طرح طرح سے حکمرانوں کو اُکسایا۔۹؍۱۱ کا جعلی واقعہ کروا کر مسلم دنیا کو تیس نہس کر دیا۔یہودی میڈیا سے مل کر دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کے پر امن مشن کو دہشت گرد مشہور کیا۔ پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے افراتفری پھیلائی۔پاکستان کی میڈیا کے کچھ اداروں
کوفنڈدے کر خریدا۔ حکمرانوں کو امداد دے کر پاکستان کے مدارس کو دہشت گردی کے اڈے قرار دیا۔مسلمانوں کے مذہبی فریضہ جہا فی سبیل اللہ کو دہشت گردی قرار دیا۔ اسلام دشمنی میں مسلمانوں کو انتہا پسند اور دہشت گرد مشہور کیا۔ اس میں سیکولر مسلمانوں حکمرانوں کو استعمال کیا۔ دینی مدارس جس میں غریب طالب علموں کو فری تعلیم دی جاتی ہے کو بند کرانے کی سازش کی۔ ہمارے اسلام دشمن حکمرانوں کو نظر نہیں آتا کہ دینی مدارس کس طرح ڈسپلن سے چلتے ہیں۔ ان مدارس کو نہ تو حکومت فنڈ دیتی ہے نہ اس کی عمارتیں بناتی ہے۔ یہ سب کام علمائے دین خود کرتے ہیں۔ عام مسلمان دینی فریضہ سمجھتے ہوئے ان مدارس کی اپنی زکوٰۃ و صدقات سے مدد کرتے ہیں۔ انگریزی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں آئے دن قتل و غارت ہوتی رہتی ہے۔ حکومت نے برسوں سے ان یونیورسٹیوں میں امن امان قائم کرنے کے لیے رینجرز تعینات کی ہوئی ہیں۔ جبکہ دینی مدارس میں ہمیشہ امن و امان قائم رہتا ہے۔ نہ کوئی قتل و غارت ہوتی ہے نہ حکومت کو ان مدارس میں رینجرز کو امن قائم کرنے کے لیے تعینات کیا جاتا ہے۔
صاحبو! الحمد اللہ ہم مسلمان ایک عظیم قوم ہیں۔ ہم دنیا کی آبادی میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہیں۔ ہم نے اس دنیا پر ہزار سال حکمرانی کی ہے۔ ہماری تزیب تمدن ،ثقافت،کلینڈر اور شاندار تاریخ ہے۔دنیا میں ہمارے ۵۷ کے قریب آزادا ریاستیں ہیں۔ ہمارے پاس تربیت یافتہ افواج ہیں۔ ہم دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہیں۔ہمارے ملکوں میں معدنیات موجود ہیں۔ہمارے پاس سمندری ہوئی اور بحری راستے ہیں۔ کیا نہیں ہے؟ ہاں ہماری حکومتوں کو دشمنوں نے تقسیم کر رکھا ہوا ہے۔ہمارے درمیان فرقہ بازی اور قومیتیوں اور لسانیتیوں کے جال پیچھا کر آپس میں لڑایا دیا ہے۔ ان حالت میں ہمیں دینی تعلیمات کی ضرورت ہے۔ہمارے مدارس کو بھی چاہیے کہ اپنے اپنے مسلک کی تعلیم دینے کے بجائے صرف اور صرف دین اسلام کی تعلیم عام کریں تاکہ مسلمانوں میں اتحاد کو فروغ ملے اور دشمن کی چالیں فیل ہو۔ ہم دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے حاصل کریں۔ اپنے اندر مسلمان لیڈر شپ پیدا کریں جو صرف دین اسلامی کی تعلیمات سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے موضوع ترین جگہ ہمارے ملک پاکستان کے دینی مدارس اور یونیورسٹیا ں ہیں۔اللہ ان کو دشمنوں سے محفوظ رکھے آمین۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسانی لے لیے۔
نیل کے ساحل سے لے کر تاباخاک خاشغر