مقصود انجم کمبوہ
صاف ستھرے معاشرے یوں ہی تشکیل نہیں پاتے قوم بننے میں صدیاں لگتی ہیں ترقی یافتہ معاشروں نے ان گنت مصیبتیں جھیلی ہیں قدم قدم پر ٹھوکروں سے واسطہ پڑا ہے دو عالمی جنگوں نے تباہی و بربادی سے استقبال کیا ہے کانٹے چنتے چنتے ایک طویل عرصہ لگا ہے غیروں نے ان کی خوب پٹائی کی ہے قرضوں نے ان کی در گت بنائی ہے پھر جاکر پاؤں پر کھڑی ہوئی ہیںیہ قومیں جو آج بڑے فخر سے اپنے دشمنوں کا منہ چڑا رہی ہیں اور صنعتی و سائینسی ترقی میں بلا کی تحقیق کر کے ملک کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کر لیا ہے معاشروں کی تشکیل میں قانون کی بالا دستی کو بہت اہمیت حاصل ہے جس معاشرے میں انصاف نہ ہو وہ معاشرہ تباہ و بر باد ہو جاتا ہے اگر ہم اپنی ترقیاتی پالیسی میں انسان کو اوّلیت دیتے ہیں تو ہمیں اس بات پر اقرار کرنا چاہئیے کہ معاشرے میں انسانی حقوق کا احترام کیا جائے گویا ہماری نظر میں انسانی حقوق کی تعریف یہ ہے کہ لوگ تشدد سے محفوظ ہوں عدالتی کاروائی کے دوران بنیادی حقوق کا خیال رکھا جائے اگر کسی کو گرفتار کیا جائے تو اس اصول کی سختی سے پابندی کی جائے کہ تمام قانونی تقاضے پورے کئے بغیر کسی کو سزا نہ دی جائے علاوہ ازیں سب کو مذہبی آزادی اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے جب ہم لوگوں کو سیاسی عمل میں شریک کرنے کی درخواست کرتے ہیں تو ہمارا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ ہم کسی پر اپنے نظریات مسلط کریں اور انہیں کسی غلط کام کے لئے مجبور کریں بہر حال ہم اس پر یقین رکھتے ہیں کہ جمہوری نظام کے لازمی بنیادی عوامل پر ضرور عمل کیاجائے مثلاً ووٹنگ کا جمہوری طریقہ کار اجتماع اور اظہار رائے کاحق، اخبارات اور اطلاعات کی آزادی یہ چند بنیادی اور ضروری شہری حقوق ہیں جو ہمارے آئین کاحصہ ہیں پاکستان نہ صرف اپنے عظیم الشان تاریخی پس منظر کی وجہ سے ایک عظیم ملک ہے بلکہ اپنے بے پناہ انسانی وسائل کی وجہ سے زبردست ترقی کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ان الفاظ کا اظہار ایڈووکیٹ شمائلہ امبرین خٹک نے راقم سے ایک خصوصی ملاقات میں کیا انہوں نے کہا کہ ہم نے معاشی ، سماجی ، سیاسی اور اقتصادی نظام کو بہتر بنانے کی عملی کوشش نہیں کی قرضے لے لے کر نظام زندگی چلا رہے ہیں قرض اُتار نے کے لئے بھی قرض لے رہے ہیں جس سے ملک قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اس وقت فی شہری ایک لاکھ 42ہزار روپے کا مقروض ہے قرضوں کی بہتات کے باعث معیار زندگی کم ہوتا جارہا ہے مہنگائی بڑھتی جارہی ہے ترقی کی شرح مزید کم ہوتی جارہی ہے اگر ہم 1966کی دہائی سے اب کی صورتحال کا مقابلہ کریں تو گھمبیر صورتحال سامنے آئے گی ترقی کی شرح گھٹتی جارہی ہے میگا پراجیکٹس کے لئے بھی قرضے لئے جارہے ہیں جبکہ شہریوں کی بنیادی ضرورتیں پوری نہیں ہو رہی ہیں مہنگائی اور بے روزگاری نے شہریوں کواضطرابی کیفیت سے دو چار کررکھا ہے انہوں نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ انتہائی پریشان ہیں روزگار نہ ملنے کے باعث بعض نوجوان نام نہاد جہادی تنظیموں کے نرغے میں آکر ملک میں انتشار و افتراق پیدا کر رہے ہیں چند ٹکوں کی خاطر خودکش دھماکوں میں مصروف ہیں انہوں نے کہا کہ ملک عزیز کے حکمرانوں کی لوٹ مار او ر ناقص پالیسیوں کے باعث ملک کی ترقی کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے ہم روز بروز پستی کی طرف جارہے ہیں میگا پراجیکٹس “سراب”ہیں لوگوں کو بے وقوف بنایا جارہا ہے شور ترقی و خوشحالی کا مچایا جارہا ہے لوگوں کی عقلوں پر بھی پردہ پڑ چکا ہے جو ہاں میں ہاں ملا کر غلط کاروں کے نعرے مار مار کر ہلکان ہوتے ہیں پڑھے لکھے افراد کو چاہئیے کہ وہ اپنے گرد دوستوں ، رشتہ داروں اور شہریوں کو موجودہ جمہوری نظام کی خرابیوں اور لوٹ مار سے آگاہ کریں اور ووٹ کے تقدس بارے اصل حقیقت سے روشناس کروائیں جمہوری نظام بہت اچھا ہے مگر افسوس کہ حکمران پارٹیوں نے اس کا جنازہ نکال رکھا ہے اس جمہوری نظام نے عوام کو کچھ نہیں دیا صدارتی نظام بارے غلط نظریات پھیلائے جارہے ہیں جبکہ یہ نظام امریکہ ، جرمنی ، فرانس اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اپنے شہریوں کے نہ صرف بنیادی حقوق پورے کر رہے ہیں بلکہ ترقی و خوشحالی کا اصل منظر پیش کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ اس وقت انتخابات کی نہیں احتساب کی ضرورت ہے او ر سپریم کورٹ کو اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہوں گی سیاستدان تو انتخابات پر زور دے رہے ہیں جبکہ فی الحال احتساب کرنا ضروری ہے تاکہ صاف شفاف اور دیانتدار قیادت ملک کی بھاگ ڈور سنبھالے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری افواج دنیا کی بہادر ترین ہے اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ہمارے ادارے کرپشن سے پاک ہو جائیں تو ملک میں بہتری آجائے گی اس وقت ملک کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے ہر ادارہ تباہی و بربادی سے دو چارہے اور یہ سب کچھ سیاسی مداخلت کے باعث ہورہا ہے خدارا ہوش کے ناخن لیجئے اور اپنا اپنا فرض دیانتداری سے ادا کرنے کا عہد کر لیجئے وقت بڑی تیزی سے گذرتا جارہا ہے اور ہماری کم ہمتی ،سست روی اور غفلت کے باعث ہم دنیا کی دو ڑ میں پیچھے رہتے جارہے ہیں اس جدید دور میں ہماری سائنس اور ٹیکنالوجی کی حالت بہت پست ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے ممالک بھی ہیں جنہوں کی سیاسی اور معاشی حالت ہم سے بھی پتلی تھی اب وہ ترقی و خوشحالی کے مزے چکھ رہے ہیں شمائلہ امبرین خٹک پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں فیصل آباد کی رہائشی ہیں اور “کرک”سے تعلق ہے وہ ایک سماجی لیڈر ہیں وہ چاہتی ہیں کہ ہمارا پیارا وطن دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے معاشرے میں پائی جانے والی خرابیوں اور کمزوریوں کا تدراک ہواور ہم ایک اچھے اور نیک شہری بن کر اپنے ملک کی سیاسی ، معاشی ، اخلاقی اور سماجی فضا ء کو ہر نوع کی برائیوں سے پاک کریں اسی میں ہماری بہتری اور فلاح ہے شمائلہ ایک شاعرہ بھی ہیں انہوں نے اپنے وطن کے لئے کئی ایک نظمیں بھی لکھی ہیں وہ چاہتی ہیں کہ ہمارا وطن ہمیشہ شاد و آباد رہے وطن کے دشمن نیست و نابود ہوں اور اندرونی انتشار کا خاتمہ ہو سیاسی فضاء میں پائی جانے والی الائشیں ، کثافتیں دور ہوں اور ہم ایک فخریہ قوم بن کر دنیا میں جئیں ہر پاکستانی کو اس امر کا احساس ہو کہ وہ سچا محبِ وطن اور دیانتدار پاکستانی شہری ہے شمائلہ کا قلمی نام لیلیٰ خٹک ہے وہ تین کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں ۔موسمِ ہجراں، دغِ ہجراں اور شبِ ہجراں شامل ہیں ۔