تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
قدرت الٰہی نے مختلف انسانوں کو مختلف ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں سے نوازا ہے، جتنی مشقت ایک عام مزدور برداشت کر سکتا ہے اتنی پڑھالکھا صحت مند نوجوان نہیں کر سکتا،جو ڈاکٹر میں خوبیاں ہیں وہ انجینئر میں نہیں ہو سکتیں،جن تحقیقی امور میں سائنسدان کو عبور حاصل ہے وہ سیاست دانوں میں موجود نہیں ہوسکتا، اسطرح سب ہی انسان کبھی بھی ایک لیول پر نہیں آسکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، اور اس میں غیر معمولی خوبیاں پیدا کی ہیں۔انسان اگر ایک طرف اپنے نفس کی پرستش میں درندہ صفت ہو جاتا ہے تو دوسری طرف اپنی خوبیوں کو بروئے کار لاکر امن پسند اور بہترین انسان بھی بن سکتا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے انسان کو اچھے اور برے دونوں راستوں کی تمیز بھی بتائی ہے، برائی کے برے انجام اور اچھائی کے بہترین نتائج سے آگاہ کیا ہے، کہ اگر انسان اپنے اندر نیکی اور اچھائی کو فروغ دے تو دنیا کی زندگی میں بھی پر سکون رہے گا اور اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی بڑی پر لطف اور رنگینیوں سے بھر پور نئی زندگی پائے گا جو کبھی ختم نہ ہوگی۔ مگر صد افسوس کہ اسلام کی روشن تعلیمات اور خاتم النبین صلی اللہ علیہ و سلم کی روشن ھدایات کے باوجود نہ جانے کیوں ہم اپنے دنیا میں آنے کے مقصد کو بھول گئے ہیں، کیوں ہم نے اپنی زندگی سے حلال اور حرام کی تمیز ختم کردی ، کیوں ہم اسلام کی روشن تعلیمات کو چھوڑ کر اغیار کی ننگی تہذیب کے دلدادہ ، اور اپنے نفس کے غلام بن گئے ۔جبکہ ہمیں انسان بنا کر اچھے اور برے راستوں کی پہچان سجھا دی گئی ہے تو ہم اچھے کاموں کو اپنانے اور برے کاموں کو ترک کرکے اعلیٰ انسان بننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔کیوں ہمارے اندر بغض،کینا،تعصب ،چغلی،غیبت اور اس طرح کی بے شمار برائیاں پائی جاتی ہیں۔
اللہ ربّ العزت نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے اپنے برگزیدہ بندے رسول اور نبی بنا کر بھیجے اور ان میں سے کئی پیغمبر علیہ السلام کو آسمانی صحیفے اور کتب بھی عطاء فرمائیں تاکہ انسانوں کو اپنے دنیا میں بھیجے جانے کا مقصد معلوم ہو سکے،مگر بعض انسانوں نے اپنی عقل کو استعمال نہ کیا، انہوں نے تمام حقائق معلوم ہو جانے کے باوجود اپنے لئے مجموعی طور پر تباہی کا راستہ ہی اختیار کیا۔یہی وجہ ہے کہ آج برے طریقوں کو اپنانے والے اکثریت میں موجود ہیں۔ لیکن اب کوئی پیغمبر نہیں آئے گا،لیکن ہدایت کی تمنا رکھنے والوں کے لئے انسانیت کا مکمل ضابطہ حیات قرآن و سنت کی صورت میں دنیا میں موجود ہے۔ نیک بننے کے لئے شرط اول ایمان ہے اور جب تک کلمہ طیبہ پر ایمان نہیں اور جب تک آخرت کا یقین نہ ہو تو نیکی اور بھلائی کا بدلہ نہ ختم ہونے والی زندگی میں کیسے مل سکے گا؟ اس لئے غیب پر ایمان کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔جب روز حساب کا یقین ہوگا تب ہی انسان برائی سے بچنے اور بھلائی کو اپنانے کی کوشش کرے گا۔انسان کتنی ہی گمراہی میں لتھڑا ہوا ہو جس وقت اس کے ذہن میں یہ بات آگئی کہ اب میں سیدھے رستے پر چلنا چاہتا ہوں اور برائی کے راستے سے بچنا چاہتا ہوں۔ اور پھر جب وہ سچے دل سے وہ توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے شامل حال ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے تمام گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں، اور اس کی ایک کامیاب زندگی کا آغازہوجاتا ہے جس میں دنیا میں بھی فلاح اور آخرت میں بھی کامیابی ہے۔ اسی طرح جب ایک غیر مسلم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرکے دنیا میں آنے کی حقیقت کو سمجھ لیتا ہے تو وہ ہم جیسے کمزور ایمان والوں سے زیادہ بہتر اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار بندہ بن جاتا ہے۔
ہمیں ایمان کی قدر اس لئے بھی نہیں کہ ہم تو مسلمان کے گھر پیدا ہوئے ہیں اب ہم نمازیں قائم کریں نہ کریں، ہم مسلمان ہیں۔جھوٹ بولیں تب بھی ہم مسلمان ہیں۔رشوت لیں پھر بھی ہم مسلمان۔ غرضیکہ ہمیں وراثت میں دین اسلام مل گیا،اب ہم اس پر جس طرح چاہیں عمل کریں،یہی ہماری بھول ہے۔ اس کی بجائے ہمیں اس بات کی فکر ہونی چاہئے کہ ہم کتنا اپنے خالق کے احکامات پر عمل کرتے ہیں، اور پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی اتباع کرتے ہیں۔ ہم بسنت مناتے ہیں،ہم ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں،ہم ہیپی نیو ائر مناتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ذرا سچے دل سے اس بات پر غور کریں ہمارا یہ عمل اللہ اور اس کے پیارے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آئے گا ؟دنیا کے بڑے بڑے ممالک میں غیر مسلم اپنی تہذیب سے تنگ آکر تیزی سے دین اسلام کی طرف آرہے ہیں۔ اور سچے دل سے اسلام کو قبول کر رہے ہیں، ان لوگوں سے اسلام کی حقانیت معلوم کی جاسکتی ہے۔ جبکہ ہمارے پیارے وطن پاکستان کو تو حاصل اسی مقصد کے لئے کیا گیا تھا کہ یہاں پر ہم ایک اسلامی فلاحی ریاست قائم کریں گے مگر ہماری یہ بد قسمتی ہے کہ ہم نے نام تو اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھ لیا لیکن یہاں عمل شریعت کے مطابق آج تک شروع نہیں کیا جاسکا۔ اگر آج ہماری حکومت بڑی طاقتوں کے دباؤ سے نکل کر، یہود و نصاریٰ کی غلامی اور ان کی خوشنودی ترک کرکے پاکستان میں شرعی قوانین کے عملی نفاذ کا اعلان کردے تو ہمارا پورے کا پورا معاشرہ سدھر سکتا ہے، ہم سب مسلمان ایک اللہ ایک کلمہ اور ایک کتاب کی بنیاد پر ایک مضبوط امت بن سکتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب مسلمانوں کو حقیقی فلاح و کامیابی کے حصول کے لئے نفسانی خواہشیں ، کینہ ، بغض ، حسد کو ترک کرکے اپنی زندگی اسلام کی روشن تعلیمات کے مطابق گزارنے کا خود سے عہد کرناچاہیے، خود کو ایسابناناچاہیے کہ ہمارے الفاظ اور کردار سے کسی بھی انسان کی دل آزاری نہ ہو۔ ہمیں خود کو ایسا بنانا چاہئے کہ ہم دوسروں کو اسلام کی جانب متوجہ کرنے ، یعنی اسلام کی تبلیغ کے لئے اپنی زندگی کو بطور آئیڈیل اور نمونہ پیش کرسکیں۔ بلاشبہ یہ فانی زندگی چند روزہ ہے ، حقیقی زندگی آخروی ہے جو کبھی نہ ختم ہونے والی ہے۔