عاصمہ کی لاش گھر کی خواتین نے ڈھونڈی، پولیس واقعہ کی جگہ پر بھی نہیں آئی ٗ لواحقین سے بچی کی لاش چوکی پر منگوالی ٗ داد کی گفتگو
یاد رہے کہ مردان کے گاؤں گوجر گڑھی کے علاقے جندر پار کی 4 سالہ بچی عاصمہ کی لاش 15 جنوری کو گھر کے قریب کھیتوں سے برآمد ہوئی تھی جس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تصدیق ہوئی تھی کہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا
مردان (یو این پی)خیبر پختونخوا پولیس کا مردان میں درندگی کا شکار ہونے والی 4 سالہ بچی عاصمہ کی لاش کو 24 گھنٹوں میں ڈھونڈنے کا دعویٰ جھوٹا نکلا، اہلخانہ کے مطابق انہوں نے بچی کی لاش خود ڈھونڈی تھی۔ نجی ٹی وی کے مطابق مقتول بچی کے دادا نے انکشاف کیا کہ عاصمہ کی لاش گھر کی خواتین نے ڈھونڈی، پولیس واقعہ کی جگہ پر بھی نہیں آئی بلکہ لواحقین سے بچی کی لاش چوکی پر منگوالی۔گھر کی خواتین نے کھیتوں میں جا کر عاصمہ کی لاش ڈھونڈ نکالی ٗ جب پولیس کو بتایا تو ان سے کہا گیا کہ بچی کی لاش چوکی لے آؤ ٗ جب وہاں گئے تو کہا گیا کہ لاش کو ہسپتال لے جاؤ۔مقتول بچی کے چچا کے مطابق جب انہوں نے بچی کی گمشدگی کی خبر پولیس چوکی کو دی تو ان سے کہا گیا کہ آپ لوگ تلاش کریں جس کے بعد اگلے دن 3 بجے بچی کی لاش کھیتوں سے ملی ٗاب یہ معلوم نہیں کہ بچی خود وہاں گئی یا اسے لے جایا گیا۔بچی کے چچا کے مطابق بچی کو ہسپتال لے جایا گیا لیکن اس وقت ڈاکٹروں نے اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا کہ بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد سے تھانے کے چکر لگتے رہے ٗ پولیس بھی صبح شام یہاں ہوتی ہے، پورے علاقے سے ڈی این اے کے نمونے بھی لے لیے گئے ہیں۔بچی کے چچا کے مطابق ہمیں کسی پر شک نہیں، نہ ہماری کسی سے ذاتی دشمنی ہے، نجانے اتنی چھوٹی بچی سے کون دشمنی نکالے گا۔مقتول بچی کے چچا کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کے بعد بچے تو ڈرے ہی ہیں، ہم بھی ڈر گئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ بچے اسکول نہیں جانا چاہتے اور ہم بھی انہیں بھیجنا نہیں چاہ رہے۔یاد رہے کہ مردان کے گاؤں گوجر گڑھی کے علاقے جندر پار کی 4 سالہ بچی عاصمہ کی لاش 15 جنوری کو گھر کے قریب کھیتوں سے برآمد ہوئی تھی جس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تصدیق ہوئی تھی کہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے مردان میں واقع عاصمہ کی رہائش گاہ کا دورہ کیا تھا اور ملزمان کی گرفتاری کی یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی۔بعدازاں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے بھی بچی کے قتل کا ازخود نوٹس لیا تھا۔