پچھلے کئی سالوں سے دہشت گردی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ہر روز کہیں نہ کہیں دہشت گردی کی خبرسننے کو ملتی ہے۔ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے ملک میں ان دہشت گردوں کاراج ہے کیونکہ جب اور جہاں دل چاہا یہ دہشت گرد اپنا کام سرانجام دے دیتے ہیں۔ ملک میں آئے دن ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے باوجودہم اور ہمارے حکمران صرف افسوس کے اورکچھ بھی نہیں کرسکتے۔
پاکستان کے دوسرے شہروں کی نسبت کراچی میں ٹارگٹ کلینگ کے ساتھ دھماکوں کا کافی راج ہے۔ شاید ہی کوئی دن ہوتا ہوگا جب کراچی میں ایسے واقعات رونما نہ ہوتے ہوں۔ دو چار لاشوں کا گرنا کراچی جیسے شہر میں معمولی کام ہے۔ مرنے سے تو کوئی نہیں ڈرتا کیونکہ یہ تو اللہ کی طرف سے حکم ہے کہ جو دنیا میں آیا ہے وہ دنیا سے واپس بھی جائے گا مگر جس طرح کراچی میں موت بانٹی جارہی ہے اس پر ہر پاکستانی کی آنکھ اشک بار ہے۔’’ موت برحق ہے کفن پر شک ہے‘‘ کے مترادف کراچی میں لاشوں کا گرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
آج کراچی میں جو خود کش حملہ ہوا اس میں ملک دشمن لوگوں نے اس پولیس آفیسر کو نشانہ بنایا جواپنے وطن کی خاطر ہروقت اپنی جان ہتھیلی پر لیے پھرتا تھا۔جس نے محکمہ پولیس میں شاید یہ سوچ کر ملازمت کی تھی کہ اپنے ملک سے کرپشن اور کرپٹ لوگوں کا قلع قمع کرتا رہوں گا۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا
ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم مانسہرہ کے علاقے ڈھوڈیال میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام اسلم خان تھا۔چوہدری اسلم کے والد کا نام محمد اکرم خان ایڈووکیٹ تھا۔ انہوں نے ڈھوڈھیال کے گورنمنٹ پرائمری اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد والد کے پاس کراچی منتقل ہوگئے۔ان کا تعلق چوہدری خاندان سے نہیں مگر ان کے لباس اور چال ڈھال کی وجہ سے یہ چوہدری کے نام سے مشہور تھے۔
چوہدری محمد اسلم شہید نے اپنی جرآت مندی اور بلند حوصلے کے باعث سب انسپکٹر سے ایس ایس پی کے عہدے تک ترقی کی کئی منازل طے کیں۔ چوہدری محمد اسلم نے پولیس میں اپنے کیرئیر کا آغاز بحیثیت سب انسپکٹر1984میں کیا۔1991میں وہ انسپکٹر کے عہدے پر پہنچے۔ پہلی بار کلاکوٹ کے تھانے میں ایس ایچ او کی ذمہ داری نبھائی۔ 1999میں ڈی ایس پی کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔2005میں انہیں ایس پی کے عہدے پر تعینات کردیا گیا۔ لیاری گینگ وار کو ختم کرنے کے لیے لیاری ٹاسک فورس کی سربراہی بھی کی۔2010ء میں وہ سی آئی ڈی کے انویسٹی گیشن ونگ کے سربراہ مقرر ہوئے۔
چوہدری اسلم خان نے کا لعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن کیے اور تحریک طالبان پاکستان کے امیر قاری سعید انور سمیت کئی جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا۔ لشکر جھنگوی کے انتہائی مطلوب وسیم بارودی کو بھی ان کی ٹیم نے ہی گرفتار کیا۔اس وجہ سے تحریک طالبان اور لشکر جھنگوی کے خلاف کاروائیوں کی وجہ سے وہ ان کے بڑے دشمن تھے۔ اس حملے سے قبل بھی ان کو تین بار ٹارگٹ کیا گیا۔ ایک بار ڈیفنس میں واقع ان کے گھر پر بھی حملہ کیا گیاجس میں ان کے ایک بچے سمیت 8افراد جان بحق ہوئے جبکہ ان کا گھر مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا۔ چوہدری اسلم کی بہادری اور پیشہ ورانہ صلاحیت کا پولیس ڈیپارٹمنٹ میں انتہائی احترام کیا جاتا تھا۔ان کی اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے انہیں پاکستان پولیس کا تمغہ قائداعظم پولیس میڈل اور تمغہ امتیا زسے بھی نواز گیا۔چوہدری اسلم نے جہاں اپنے سینے پریہ تمغے سجائے وہاں آج شہادت کا تمغہ بھی اپنے سینے پر سجا لیا۔
چوہدری اسلم جیسے فرض شناس آفیسر کی موت کئی سوال چھوڑ گئی ہے۔ کیا ایسا آفیسر جس کو دھمکیاں دی جارہی تھیں اس کی حفاظت کرنا کس کا فرض تھا؟ کیا یہ دہشت گرد اس طرح سے اپنے راہ میں حائل لوگوں کو مارتے رہینگے اور ہماری حکومت اس کے بدلے میں چند ٹکے ، ملازمت اور پلاٹ دیکر ان کی موت کا معاوضہ دیتی رہے گی؟ آخر کب ہمارے ملک کے حالات سنوریں گے؟کب ہماری زندگی میں سکون کاسانس آئے گا؟